کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 22
3. وحشتِ قلبی: گناہگاروں اور اللہ کے درمیان دوری ہوجاتی ہے اور دل کا سکون نہیں ملتا ﴿أَلا بِذِكرِ اللَّهِ تَطمَئِنُّ القُلوبُ 28 ﴾... سورة الرعد" اللہ کی یاد سے ہی قرار پکڑتے ہیں ،لوگوں سے وحشت اور دوری ہوتی ہے،خاص طور پر اصلاح کرنے والوں سے۔ان کےساتھ اُٹھنے بیٹھنے اور میل ملاقات سے گناہ گار گریز کرتا ہے۔ یہاں تک کہ بیوی بچوں اور اپنے اقربا سے وحشت ہو جاتی ہے۔
4. مشکلات: کاموں میں دشواریاں پیدا ہوجاتی ہیں جو آدمی اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے کام آسان کردیتے ہیں۔ قرآن میں ہے: ﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مَخرَجًا 2﴾... سورة الطلاق
5. ظلمات: جس طرح رات کی تاریکی میں کچھ سجھائی نہیں دیتا، گناہ گار کی زندگی کے معاملات میں تاریکی ہوجاتی ہے،سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیا کرے۔طاعت و عبادت نور ہے اورگناہ تاریکی ہے۔گناہ بڑھتے ہیں تو یہ تاریکی بھی بڑھتی جاتی ہے۔ جبکہ ایسا شخص جو اللہ سے ڈر کر گناہوں سےبچتا ہے، اللہ اس کے لیےایک نور بنا دیتے ہیں جس سےوہ زندگی گزارتا ہے۔اور گناہ گار اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے۔ گناہوں کی تاریکی اور سیاہی اس کی آنکھوں، منہ اور چہرے پرچھا جاتی ہے۔
6. گناہوں کا وبال: چہرے پر سیاہی، دل اور قبر میں تاریکی، جسم میں کمزوری، رزق میں تنگی، مخلوق کےدل میں نفرت اور بزدلی کا آ جانا وغیرہ ، یہ سب گناہوں کا وبال ہے:
اس میں کوئی شک نہیں کہ اطاعت الٰہی ایک نور اور روشنی ہے جبکہ معصیت الٰہی ایک تاریکی اور اندھیرا ہے ۔چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہیں:
((إن للحسنة ضياء في الوجه ونورًا في القلب وسعة في الرزق وقوة في البدن ومحبة في قلوب الخلق وإن للسيئة سوادًا في الوجه وظلمة في القبر والقلب ووَهنا في البدن ونقصا في الرزق وبغضة في قلوب الخلق)) [1]
[1] الجواب الكافي لمن سأل عن الدواء الشافي از ابن قیم: ص58