کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 19
ہمارے حکمرانوں کے سامنے سود کا تذکرہ آئے یا غیروں سے امداد کے خوش نما نام پر بھیک اور گلے میں پڑنے والے طوقوں کا ، تو اسے وہ آرام سے اِسے دنیابھر میں 'چلی آنے والی روایت' کہہ کر اپنے فرض سے سبک دوش ہوجاتے ہیں، فرقہ واریت کی مذمت تو جا بجا کرتے ہیں لیکن اس کے خاتمے کی کوئی سنجیدہ جدوجہد کرنے کو تیار نہیں بلکہ اسے بالواسطہ طورپر پروان چڑھانے میں مگن ہیں۔ حکمرانوں کو اپنے فرائض سے آنکھیں بند کرنے کایہی رویہ مسائل کی جڑ ہے!!
ہم میاں شہباز شریف کی صورت میں ایک قدرے بہتر حکمران کی محنت وخلوص کی قدر کرتے ہیں، اُن کی خدمات کو سراہتے ہیں، اُن کے دردِ دل کو سلام پیش کرتے ہیں، لیکن ان کی تشخیص مرض کے سلسلے میں یہ نشاندہی کرنا چاہتے ہیں کہ وہ مسلم حکمران کے فرائض کو پہچانیں۔ اپنے تعلیمی فرائض، جن سے پوری قوم کی تشکیل وتعمیر ہوتی ہے، کو متوازن کریں۔ معاشرے کی تعمیر وترقی میں اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کریں۔ مسلم حاکم کے اصل فرائض کو جانیں اور اس سلسلے میں اُسوۂ نبوی او راُسوہ خلفاے راشدین سےرہنمائی حاصل کریں۔ سائنسی ترقی اور غربت کا خاتمہ کوئی غیر اسلامی ہدف نہیں، لیکن اُن کے حصول کا اسلامی ماڈل اختیار کریں، جس کے نتیجے میں دیرپا تبدیلی اور غربت کا دائمی خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔ تفکر وتدبر اور اپنی صلاحیتوں کو کام میں لانے کی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جابجا تلقین کی ہے، لیکن اس سے پہلے سائنس دان کو مسلمان تو بنا لیں، اللہ کا پیروکار بندہ بن کر، وہ اللہ کی نعمتوں سے جو جی میں آئے، استفادہ کرے۔ قرآن کی زبان میں یوں سمجھئے کہ
﴿قُل مَن حَرَّمَ زينَةَ اللَّهِ الَّتى أَخرَجَ لِعِبادِهِ وَالطَّيِّبـٰتِ مِنَ الرِّزقِ ۚ قُل هِىَ لِلَّذينَ ءامَنوا فِى الحَيوٰةِ الدُّنيا خالِصَةً يَومَ القِيـٰمَةِ...32﴾[1]
''کون ہے وہ جو اللہ کی نعمتوں اورزینتوں کو حرام قرار دینےوالا ہے، یہ ایمان والوں کے لئے ہیں دنیا میں ۔ اور یوم آخرت صرف ایمان والوں کا ہی نصیب ہوں گی۔''
تاہم قوم کی اصلاح کا لائحۂ عمل بناتے ہوئے حکمرانوں کو اُن کی دینی ودنیاوی ، دونوں صلاح وفلاح کو پیش نظررکھنا چاہئے، تبھی وہ اپنے فرائض منصبی سے عہدہ برا ہوسکتے ہیں اور اسی سے ملتِ اسلامیہ کی درست تشکیل وتعمیر ہوسکتی ہے۔ وما علینا إلا البلاغ
(ڈاکٹرحافظ حسن مدنی)
[1] سورة الاعراف:32