کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 18
طرف سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے دنیا بھر کی دولت سود وکرنسی کے ذریعے مالداروں کی جھولی میں ڈال رہے ہیں اور دوسری طرف اُن کی مالی ہوس کا شکار ہونے والے لوگوں کو جھوٹی مدد کے نام پر امداد کے چند سکے بانٹ چھوڑتے ہیں۔ الغرض ہمارے حکمرانوں کو اسلامی نظریۂ حیات کا شعو رہونا چاہئے اورمسلم حاکم کے فرائض منصبی کے مطابق ہی اُنہیں اپنی قوم کو پروان چڑھانا چاہئے۔ جناب وزیر اعلیٰ کو اپنے خطاب میں ان علما او رطلبہ کو مادیت کے لئے متحد ہو کر جدوجہد کی بجائے، ان کے کارِ خیر بلکہ شیوۂ پیمبری کو تقویت اورہرطرح سے اُن کی تائید کرنے کا عزم کرنا چاہئے تھا۔ یہ اہلِ دین ، خود جس طرح معاشرے کو اللہ تعالیٰ کی طرف لانے کی جدوجہد کررہے ہیں، اس میں اُن کا ساتھی بننے کی خواہش کا اظہار کرنا چاہئے تھا،کیونکہ علماے کرام نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کے وارث ہیں اور مسلمان حکام نبی کامل صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی حیثیت کے وارث ہیں۔ دونوں کا فرض ومنصب ایک ہی ہے، کہ لوگوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلایا جائے، اور اللہ کے دین کو اپنے اور دوسروں پر قائم کرنے کی جدوجہدکی جائے۔ اسلام میں دینی اور سیاسی قیادت دو جدا چیزیں نہیں رہیں، مسلمانوں کی نماز کا امام ہی نبی کا سیاسی جانشین ہوتا ہے، اور دونوں کو شریعت اسلامیہ کی اصطلاح میں 'امام ' ہی کہا جاتا ہے۔ افسوس کہ آج یہ خالص او رکھرے اسلامی نظریات اتنے اجنبی ہوچکے ہیں کہ ان کو حیرت سے سنا،پڑھا جاتا ہے۔ حکام کے کے اصل فرائض قرآن وسنّت کی زبان میں اوپر ذکر ہوےہیں۔اسلام کا وعدہ کرنے کے باوجود اللہ کے حکموں سے روگردانی نے آج ہمیں اس ذلت ورسوائی میں ڈال دیا ہے کہ ہمارا سب سے گندا نظام 'سیاست' کا ہے، جو مغرب سے مستعار اور اُس کے دباؤ کے ذریعے ہم پر مسلط ہے۔ اس جمہوری نظامِ سیاست کا ہی کرشمہ ہے کہ عدالتوں میں انصاف نہیں ملتا، تھانوں میں شنوائی نہیں ہوتی، ہمارا میڈیا پاکستان اور اسلام کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، حکمران ہاتھوں میں کاسئہ گدائی لے کر پھرتے اور پاکستان کا بچہ بچہ قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ملک بھر میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، امن وامان کی گراں مایہ نعمت (جواللہ نے اپنے دین کے احکام پرعمل کرنے والوں کو انعام میں دینے کا وعدہ دیا ہے) سے محروم ہونےسے معاشی سرگرمیاں بھی معطل ہیں، کوئی یہاں کاروبار کرنے کو تیار نہیں اور ہر صاحب ثروت اپنا مال سمیٹ کر بیرونِ ملک ڈیرے لگا رہا ہے۔ ان حالات میں قوم کی معاشی ترقی بھی کیوں کر ممکن ہے؟