کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 16
﴿وَأمُر أَهلَكَ بِالصَّلوٰةِ وَاصطَبِر عَلَيها ۖ لا نَسـَٔلُكَ رِزقًا ۖ نَحنُ نَرزُقُكَ ۗ وَالعـٰقِبَةُ لِلتَّقوىٰ 132﴾[1]
''اے نبی! اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور اس پر استقامت اختیار کر۔ ہم تجھ سے کسی رزق کا مطالبہ نہیں کرتے۔ تیرے رزق کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ اور آخرت تو ہے ہی اہل تقویٰ کے لئے۔''
اسلام میں اللہ کی بندگی کے ساتھ ساتھ، انسانوں کے مابین بہتر تعلقات کی وسیع وعریض ہدایات موجود ہیں، پھر معاشروں کے عد ل وانصاف اور امن وامان کے ان گنت احکامات اس میں پائے جاتے ہیں۔ جب کوئی حکمران یا ذمہ دار /مسئول اپنے پیرکاروں کو اسلام کا حکم دے گا، زکوٰۃ کے ذریعے مالی توازن پیدا کرنے کی کوشش کرے گا، اللہ کی حدود کے قیام کے ذریعے معاشرے میں امن وامان قائم ہوگا تو لامحالہ وہ معاشرے زندگی کے ہرمیدان میں ترقی کریں گے۔معیشت وصنعت بھی پروان چڑھے گی، جب ہمارے مغربی تعلیم یافتہ اور مادہ پرست حکمران پوری قوم کو بگ ٹٹ سائنس اور مادیت کی تلقین کرتے نظرآتے ہیں تو لاریب یہ محسوس ہوتا ہے کہ اُن کا اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں اور تاریخ اسلامی کے زرّیں اَدوار کی زمینی اور عملی شہادت پر یقین نہیں ہے۔ اُن کی فکر ونظر کے زاویے مغرب سے مستعار ہیں اور مغرب کی مصنوعی ترقی نے اُن کی آنکھوں کو خیرہ کیا ہوا ہے جس کے بارے میں مغرب کے نباض ، علامہ اقبال پہلے ہی کہہ چکے ہیں: ؏
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
مسلمانوں کے حکمران دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سیاسی جانشین ہیں،اور مسلم حکمران انہی اہداف ومقاصد کے لئے کام کرتا ہے، جو اس کے رہبر ورہنما صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کردیے ہیں۔ اسی بنا پر مسلمانوں پر اُن کی اطاعت کی شرعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جس کی تلقین کئی ایک فرامین نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہ میں موجود ہے۔ اسلام کا پیغام انسانیت کے نام اللہ کی بندگی اور اطاعت وپیروی کا ہے، دنیا کو آخرت کی تیار ی کے لئے گزار کر، آخرت سنوارنے کا ہے۔ جو اس پر عمل پیرا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی دنیا بھی سنوار دیتے ہیں۔
غور کیجئے کہ اگر اسلام کا پیغام بھی براہِ راست غربت کے خاتمے کا ہوتا تو زبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم یا
[1] سورة طه:132