کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 15
بتائی ہوئی حدود میں اُنہوں نے استعمال بھی کیا۔
یہ اللہ کی سرزمین ہے، آسمان وزمین اُس کی میراث ہیں اور کائنات اُسی کے حکم سے چلتی ہے، زمین پر کوئی پتہ بھی اس کے علم کے بغیرحرکت نہیں کرتا، جب اللہ کی مخلوق بالخصوص مسلمان اس کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو وہ ربّ کریم اُن پر اپنے خزانے کھول دیتا ہے:
﴿وَلَو أَنَّ أَهلَ القُرىٰ ءامَنوا وَاتَّقَوا لَفَتَحنا عَلَيهِم بَرَكـٰتٍ مِنَ السَّماءِ وَالأَرضِ وَلـٰكِن كَذَّبوا فَأَخَذنـٰهُم بِما كانوا يَكسِبونَ ﴿96﴾[1]
''اگر یہ بستیوں والے ایمان لے آئیں، اللہ کا تقویٰ اختیار کریں تو ہم ان پر آسمان وزمین کی برکات نازل کریں، لیکن اُنکی تکذیب کے سبب اُنہیں اپنا کیا بھگتنا پڑتا ہے۔''
حضرت نوح کی اپنی قوم کو یہ منادی دنیوی فلاح وکامرانی کا واضح اعلان کررہی ہے:
﴿فَقُلتُ استَغفِروا رَبَّكُم إِنَّهُ كانَ غَفّارًا 10يُرسِلِ السَّماءَ عَلَيكُم مِدرارًا 11 وَيُمدِدكُم بِأَموٰلٍ وَبَنينَ وَيَجعَل لَكُم جَنّـٰتٍ وَيَجعَل لَكُم أَنهـٰرًا 12 ما لَكُم لا تَرجونَ لِلَّهِ وَقارًا 13﴾[2]
''میں نے اُنہیں دعوت دی کہ اللہ سے استغفار کی روش اختیار کرو، وہ بلاشبہ بڑا ہی بخشنہار ہے۔ وہ آسمان سے تم پر موسلا دھار بارشیں برسائے گا، وہ اُموال اور بیٹوں کے ذریعے تمہیں دنیا میں نعمتیں عطا کرے گا۔ تمہارے لئے باغات اور نہریں بہائے گا، تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ سے (ان وعدوں کی تکمیل کا) یقین نہیں رکھتے۔''
یہی دعوت اللہ تعالیٰ نے سابقہ اُمتوں کو بھی دی، قرآن کی زبانی...:
﴿وَلَو أَنَّهُم أَقامُوا التَّورىٰةَ وَالإِنجيلَ وَما أُنزِلَ إِلَيهِم مِن رَبِّهِم لَأَكَلوا مِن فَوقِهِم وَمِن تَحتِ أَرجُلِهِم...66﴾[3]
''اگر یہ بستیوں والے تورات وانجیل اور اللہ کی طرف سے منزل شدہ وحی کو دنیا میں قائم ونافذ کردیں، تو یہ اُوپر سے بھی نعمتیں کھائیں اور نیچے سے بھی۔''
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کو رزق کی فکر کرنے کی بجائے، اپنے دینی فرائض ادا کرنے کی تلقین وہدایت کی ہے اور اس کے نتیجے میں رزق کی فراوانی کا سامان اللہ تعالیٰ خود کرتے ہیں:
[1] سورة الاعراف:96
[2] سورة نوح:10 تا 13
[3] سورة المائدة:66