کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 13
حکمران ہونے کے ناطے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جس امر کی ذمہ داری اُن پر عائد کی ہے، وہ یہ نہیں کہ اس معاشرے میں کتنے سائنس دان پیدا ہوئے اور اُن کی رعایا نے دنیوی اسباب ووسائل حاصل وجمع کرنے میں کتنی کامیابی حاصل کی۔یہ مغربی اقوام کا میزانِ ترقی اور منشورِ حکومت ہے۔ قرآنِ کریم میں مسلم حاکم کا فریضہ اور رویّہ اللہ تعالیٰ نے یہ قرار دیا ہے: ﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّـٰهُم فِى الأَر‌ضِ أَقامُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَوُا الزَّكو‌ٰةَ وَأَمَر‌وا بِالمَعر‌وفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ‌...41﴾[1] ''وہ لوگ، اگر زمین میں ہم اُنہیں حکومت وتمکین عطا کریں، تو وہ اقامتِ نماز، ایتاے زکوٰۃ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا قیام کریں گے۔ '' اگر حکمران یہ فرائض پورے کریں تو قرآنِ کریم نے اُنہیں معاشرے میں امن وامان کی بیش بہا نعمت کا وعدہ [2]دیا ہے۔ جس نظامِ سیاست نے دنیا میں انقلاب آفرین اثرات پیدا کئے اور جس کی تمنّا چودہ صدیاں گزرجانے کے بعد آج بھی ہر مسلمان رکھتا ہے، اُس کی ترجیحات اور لائحۂ عمل وہی تھا جو قرآنِ کریم نے بیان کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنی ہر حیثیت میں کسی اُمتی کے لئے اُسوہ اورقدوہ ہیں، چاہے وہ فرد کی حیثیت ہو، یا حاکم وقاضی اور سپہ سالار کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ حکومت میں آپ کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی غربت سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے بے تعلقی اور دنیا سے رغبت کی فکر ستایا کرتی تھی۔ آپ ہر اسلام لانے والے فرد اور اپنے نمائندہ گورنر کو بھیجتے ہوئے اسے انہی احکام کی تلقین کرتے جو حدیثِ معاذ[3] ودیگر میں موجو دہیں۔ کیا وجہ ہے کہ مدینہ منورہ میں سیاسی حکمرانی کے 10 برس گزار نے اور کامیاب ترین بلکہ قابل اتباع حکمرانی کرنے کے بعد، جب آپ دنیا سے تشریف لے جاتے ہیں تو مدنی معاشرہ میں كوئی سائنس دان پیدا نہیں ہوتا، مادی علوم اور شہری وتمدنی سہولیات میں کوئی قابل ذکر ارتقا نہیں ہوتا،وہاں غربت سے خاتمے کا
[1] سورة الحج:41 [2] وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ... وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ... (سورة النور:55) [3] لَمَّا بَعَثَ مُعَاذًا عَلَى الْيَمَنِ قَالَ: «إِنَّكَ تَقْدَمُ عَلَى قَوْمٍ أَهْلِ كِتَابٍ فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ عِبَادَةُ اللَّهِ فَإِذَا عَرَفُوا اللَّهَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِهِمْ وَلَيْلَتِهِمْ فَإِذَا فَعَلُوا فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ فَرَضَ عَلَيْهِمْ زَكَاةً مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ فَإِذَا أَطَاعُوا بِهَا فَخُذْ مِنْهُمْ...» (صحیح بخاری: 1395)