کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 12
تما م شعبہ ہائے حیات میں باہمی ربط وارتباط بھی ہونا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ مدارسِ دینیہ میں سماجی علوم کے تعارف اور عملی مسائل پر توجہ کو بڑھانا چاہئے لیکن اس سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ معاشرے کے 95 فیصد نظام تعلیم یعنی سکول وکالج میں اسلام کی تعلیم اس سے کہیں قوی اور وسیع تر ہونی چاہئے۔جب حکومت ان اداروں کو بیش بہا تعلیمی بجٹ دیتی اور اُن کی اسناد کو تسلیم کرکے، اُنہیں معاشرے میں واضح اور متعین کردار دیتی ہے تو معاشرے کے مادی ارتقا کی ذمہ داری بھی ان شعبہ ہائے حیات کے فضلا کو اُٹھانی چاہئے۔وزیر اعلیٰ کا مدارس سے مادی میدانوں کے ماہرین پیدا کرنے کا مطالبہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتااور دنیا بھر میں بھی ایسے ہی ہورہا ہے۔مدارسِ اسلامیہ الحمد للہ اپنا کام کررہے ہیں، ان میں اصلاح اور ارتقا اس نوعیت کا ہونا چاہئے جو ان کے مقصد ومنزل سے ہم آہنگ ہو، نہ کہ اصلاح وترقی کے نام پر انہیں ان کے مشن یعنی مسلمانوں کو دینی رہنمائی دینے اورمعاشرے کو درپیش مسائل میں اسلام کی ترجمانی کرنے سے محروم کردیا جائے۔ اگر ہماری حکومتیں مدارسِ اسلامیہ کو ان کے حقیقی مقاصد سے بہتر طورپر ہم کنار کرنے کے لئے اقدامات کرتی ہیں تو اس کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا جائے گا۔
اسلامی علوم کو صرف مدارس تک محدود کردینے اور انہی سے ہر میدان کے ماہرین کے حصول کا مطالبہ سیکولرزم پر ایمان رکھنےکا شاخسانہ ہے جس نظا مِ الحاد میں دین کو ایک محدود خانے پر مقید کرکے، دنیا کے تمام دائرہ ہائے کار کو خالص انسانی خواہشات اور معلومات کی بنا پر پروان چڑھایا جاتا ہےاور انہی الٰہی رشد وہدایت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ جبکہ پورے معاشرے میں اسلام کا علم عام کرنا اور تمام شعبہ ہائے حیات کے ماہرین کو اسلام کا ضروری علم دینا، اسلامی نظریۂ تعلیم کا تقاضا ہے جس کی رو سے مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہونا چاہئے جو فزکس وکیمسٹری کی طرح صرف علومِ اسلامیہ میں تفقہ وبصیرت کے لئے یکسو ہو۔ سورة التوبۃ کی آیت نمبر 122 واضح طور پر بتاتی ہے کہ تم میں ایک جماعت دین وشریعت کے لئے پیغمبرانِ کرام اورائمۂ اسلاف کی طرح یکسو ہونی چاہئے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح یہ اعلان کردیا تھا کہ ''تم اپنے دنیا کے معاملات کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔'' اور دوسری طرف دین کا لازمی علم تمام مسلمانوں پر فرض قرار دیا گیا۔ ہمارے ارباب اختیار کو کم ازکم اسلام کے بنیادی نظریات سے آگاہ ہونا اور علماے کرام کی مجلس میں اِنہیں سیکولر نظریات پر مبنی دعوت سے گریز کرنا چاہئے۔
٭ وزیر اعلیٰ کا معاشرے میں توازن پیدا کرنے کا مطالبہ ، اس کو سائنسی ترقی سے ہم کنار کرنے کی خواہش اور غربت کے خلاف متحد ہوجانے کا عزم بھی قابل قدر ہے، لیکن ایک مسلم