کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 11
4. میں علما ے کرام اورطلبہ علومِ دینیہ کے اس باوقار اجتماع میں آپ کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہمیں یکسو اور متحد ہوکر غربت کے خاتمے کے لئے کوششیں کرنی چاہئیں اورمحراب ومنبر سے غربت کے خاتمے کی مؤثر جدوجہد ہونی چاہئے۔ 5. اُنہوں نے آخر میں اپنا پیغام ان الفاظ میں طلبہ کو دیا کہ ''ہمیں پاکستان کو عظیم ترریاست بنانا ہے، سائنس کو اپنا زیور بنانا ہوگا،غربت وجہالت کی اتھاہ گہرائیوں سے پاکستان کو نکالنا ہے، ہمیں ان مقاصد کے حصول کے لئے متحد ہوجانا چاہئے۔'' تبصرہ میاں محمد شہباز شریف کے مذکورہ بالا بہت سے خیالات قابل قدر ہیں، بالخصوص فرقہ واریت کے بارے میں ان کا تجزیہ اور شکوہ عین درست ہے۔ تاہم ان کے خطاب میں بعض اُمور قابل توجہ ہیں۔ تعلیم کے ضمن میں اربابِ مدارس کو ہی جدید علوم کی تلقین کافی نہیں اور اس پر اُن کا معاصر مسلم دنیا سےاستدلال بھی درست نہیں۔ مروّجہ دینی مدارس مسلم معاشرے میں علوم شریعت کے ماہرین اور تفقہ فی الدین کی صلاحیت رکھنے والے افرادِ کار تیار کرنے کے ادارے ہیں، جیسا کہ حرمین کی سرزمین، سعودی عرب کی اسلامی جامعات بھی انہی مخصوص مقاصد کےلئے سرگرم ہیں۔ ان دینی اداروں میں سماجی علوم کا تعارف بھی پڑھا پڑھایا جانا چاہئے لیکن جس ضرورت کی طرف جنابِ وزیر اعلیٰ نے اشارہ کیا ہے، وہ دراصل پورے مسلم معاشرے کے عوامُ الناس کو دی جانے والی معیاری اور وسیع تراسلامی تعلیم کا ثمرہ ہے۔ درحقیقت تفقہ فی الدین کے متخصص تیار کرنے کے علاوہ اسلام کا عامّۃ المسلمین سے بھی یہ لازمی شرعی تقاضا ہے کہ وہ دین کے معقول اور ضروری علم کے حامل[1] ہوں۔ جناب وزیر اعلیٰ کو اپنے اس مبارک جذبہ کی تکمیل کے لئے صوبہ پنجاب اور ملک بھر کے سکول وکالج میں علوم اسلامیہ کی تربیت کو اس معیار پر پہنچانا چاہئے کہ وہاں سے نکلنے والے ڈاکٹر وسائنس دان تلاوت ونعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی ایک موضوع پر گاہے اسلامی موقف کی بھی ترجمانی كی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جس طرح فزکس وکیمسٹری کی مسلم معاشرے میں بصیرت ومہارت کی ضرورت ہے، اسی طرح اس معاشرے کی علومِ نبوت میں بھی مہارت اوّلین اور بنیادی تقاضا ہے،اور ان
[1] فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : ((طلب العلم فریضة على كل مسلم)) (سنن ابن ماجہ: 229)