کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 100
بہانے سے سلب نہیں کرنا چاہئے بلکہ ربّ المال کے شرعی اختیارات کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے معاملات کو واضح کرے۔ 6. مضاربہ میں بینک کو جس نسبت (Ratio) سے منافع ہو، اسی نسبت سے رب المال (Depositors) کو بھی منافع میں شریک کرے۔ 7. اقساط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں صدقہ کی شرط کسی بھی طرح جائز نہیں ، چاہے صدقہ کی رقوم کو بینک استعمال کرے یا خیراتی اداروں کو دے۔بلکہ اس کے بجائے تنگ دست کو مہلت دینے کے سنہرے شرعی اُصول کو اپنایا جائے۔ 8. اگر بینک کو گاہک کی جانب سے جان بوجھ کر تاخیر کا خدشہ ہو تو رقم کی صورت میں جرمانہ کے بجائے کوئی اور طریقہ اختیار کیا جائے ۔ مثلاً گاڑی یا گھر یا کوئی اور چیز بیچتے وقت اس کی قیمت میں کچھ خدمات(Services) کے حوالہ سے بھی رقم وصول کی جائے اور قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں ان خدمات کو ختم یا کم یا مؤخر کردینے کی شرط عائد کی جاسکتی ہے۔ 9. مرابحہ میں بینک اسی خریدار کو اپنا وکیل بنانے کے بجائے کسی اور کو اپنا وکیل مقرر کرے۔ 10. مرابحہ میں التورق المنظم کی قباحت سے بچنا نہایت ضروری ہے۔ 11. کسی بھی معاہدہ میں طرفین کی جانب سے کوئی وعدہ نہ کیا جائے ، اور اگر وعدہ یک طرفہ ہو یعنی صرف بینک یا صرف گاہک کی جانب سے تو اس وعدہ کے ایفا کو قانوناً لازم قرار نہ دیا جائے۔ 12. إجاره المنتهیة بالتملیك کے بجائے اسلامی بینک بیع التقسیط کا فارمولا اختیار کرے تو زیادہ بہتر ہے ۔ اس صورت میں اسلامی بینک چیز کی ملکیت اگرچہ گاہک کو منتقل کرنے کا پابند ہوگا، لیکن یہ شرط عائد کی جاسکتی ہے کہ اس چیز کی ملکیت بینک اپنے پاس بطورِ رہن کے رکھے گا جب تک کہ خریدار چیز کی قیمت مکمل ادا نہ کردے۔بیع التقسیط میں چیز کے تلف ہوجانے یا نقصان کی صورت میں بینک ضامن بھی نہیں ہوگا۔اور بیع