کتاب: محدث شمارہ 360 - صفحہ 10
کے سیمینار میں بہترین 'پریزنٹیشن' پیش کررہا ہوتا ہے، کوئی ڈاکٹر خوبصورت نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سنانے کے ساتھ ساتھ اپنے میدان میں بھی پیشہ ورانہ مہارت کا حامل ہوتا ہے۔مسلم ممالک میں فزکس، ریاضی، سیاست، زراعت کے شعبوں کے مہارت کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی مہارت بھی بیک وقت پائی جاتی ہے۔ مراکش کے شہر کاسابلانکا (دارِ بیضا) سے ملائشیا کے کوالالمپور تک چلے جائیں تو ہمیں دینی علوم کے ماہرین ان تمام شعبوں میں کام کرتے دکھائی دیں گے، لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں ایسا بہت کم ہے۔آج لیپ ٹاپ کی تقسیم کے ذریعے ہم دینی مدارس کے طلبہ کو معاشرے کی تعمیر وترقی سے منسلک اورہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ دین ودنیا کے جامع ہوں۔اسی سے پاکستان کی ترقی اور خوش حالی وابستہ ہے۔ان لیپ ٹاپس کے ذریعے انٹرنیٹ پر ملنے والے مضامین میں آپ دیکھیں گے کہ مسلمانوں نے کس طرح سائنس وٹیکنالوجی میں ترقی کی،مسلمانوں نے سائنسی علوم میں کس طرح نام پیدا کیا۔ اندلس اور ہندوستان میں کتنی صدیاں اسلامی ریاست پروان چڑھتی رہی، انٹرنیٹ کے ذریعے آپ کئی اُلجھے مسائل کی تحقیق کے قابل ہوسکیں گے۔ آج ہمارے مدارس میں سارا زور نظریہ اور تھیوری پر لگا دیا جاتا ہے اورعملی مسائل سے پوری طرح صرفِ نظر کیا جاتا ہے، مسلم معاشرے کے زندہ مسائل بھی ہمارا موضوع ہونے چاہئیں۔ہمارے مدارس کو چاہئے کہ ان ممالک کی اتباع میں اپنے مدارس میں جدید علوم اور ٹیکنالوجی کو فروغ وپروان چڑھائیں، مدارس کے طلبہ کا جدید علوم سے گریز اور معاشرتی ارتقا سے پیچھے رہنے کا رویہ فوری اصلاح اور مؤثر جدوجہد کا متقاضی ہے۔
3. وزیر اعلیٰ نے پاکستان کی پریشان کن صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہرسمت جل رہا ہے، ہم پر 60 ارب ڈالر کے قرضے ہیں، ہر پیدا ہونے والا بچہ سیکڑوں روپے کا مقروض ہے۔ ان پر ہمیں ہرسال کروڑوں روپے سود ادا کرنا ہوتا ہے، جو میں جانتا ہوں کہ غیراسلامی ہے لیکن کیا کریں، دنیاکےسارے مسلم ممالک میں سود کا ہی نظام چل رہا ہے۔ ہم کبھی غور نہیں کرتے کہ ہمارے تھانے کیوں ظلم کا گہوارا بنے ہوئے ہیں، عدالتیں کیوں انصاف نہیں دیتیں، ہمیں دنیا بھر سے کیوں ڈکٹیشن ملتی ہے اور اہل مغرب ہمارے خون میں ڈوبے ہوئے چند سکے ہماری طرف امداد کے نام پر پھینک کر ہماری خودمختاری سے کھیلتے ہیں۔ جب تک یہ کشکول کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا،پاکستان اپنی منزل پر نہیں چل سکتا۔