کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 9
کیا جائے۔ (ہفت روزہ ’اہلحدیث‘ لاہور ص ۳، ۱۶؍ اگست ۱۹۷۴ء) ہم نے یہ طویل اقتباس اس لئے نقل کیا ہے کہ فاضل ایڈیٹر کی بات سمجھنے میں اغلاق نہ رہ جائے۔ یہ فکر جدید طبقہ کی طرف سے وباء کی طرح پھیل رہا ہے، یہاں تک کہ وہ اہل حدیث جنہوں نے بادِ مخالف کے تیز و تند جھونکوں میں ہمیشہ شمع سنت فروزاں رکھی وہ بھی اب ڈانوا ڈول ہونے لگے ہیں۔ جس انداز سے مسائل کو سوچنے سمجھنے کے لئے اب چلن عام ہونے لگا ہے وہ مومنانہ کم اور مار کسی زیادہ ہے۔ اسلاف کے نزدیک حسن و قبح شرعی ہے، قدیم اور جدید اہلِ اعتزال کے نزدیک سرتاپا عقل۔ اس لئے شرعی نقطۂ نگاہ سے سوچنے کی کم کوشش کی جاتی ہے، صرف مادی اور افادی حیثیت سے جائزہ لیا جا رہا ہے، گویا کہ، اب خدا سے بھی مطلب کی دوستی ہو گئی ہے۔ اور بالکل یوں جیسے اب خدا کو اپنے بندوں سے ہی پوچھ پوچھ کر چلنا چاہئے۔ بہر حال ہمیں اس اندازِ نظر سے شدید اختلاف ہے، ورنہ کتاب و سنت کی ایک شے بھی متجد دین کی دستبرد سے محفوظ نہیں رہے گی۔ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں وقت کافی بچتا تھا، پانچ نمازیں چھوڑ دس پڑھی جا سکتی تھیں، اب حالات قطعی مختلف ہو گئے ہیں۔ پانچوں وقت مسجد میں حاضری سے بڑا ہی حرج ہوتا ہے، لہٰذا اب صرف صبح کی رہ جانی چاہئے یا زیادہ ایک شام کی۔ پہلے قوتِ برداشت زیادہ تھی۔ گرمیوں کے روزے ممکن تھے، اب سارے دسمبر جنوری میں آنا چاہئیں اور وہ بھی ہفتہ عشرہ سے زیادہ نہ ہوں۔ حج سے غرض ایک عظیم اجتماع ہے سو وہ حالات کے مطابق مناسب موسم اور مناسب جگہ میں ہو سکتا ہے، اتنا دور دراز کا سفر کیا ضرورت ہے۔ قرآن حکیم ایک آئینی کتاب ہے اس سے پروگرام لو، اور مناسب طریقے نافذ کرو، یہ تلاوت ولادت کے چکروں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ الخ زکوٰۃ ایک مالی عبادت ہے جو ویسی ادا کی جائے گی، جیسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کا نمونہ پیش کیا۔ ﴿خَیْرٌ لِّلَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ﴾ (سورهٔ روم۔ ركوع۴) باقی رہیں ’ضرورتیں‘؟ سو یہ آپ کو کس نے بتایا ہے کہ، وہ صرف زکوٰۃ کے ہی کھاتے سے پوری ہونی ضروری ہیں؟ اسلام نے اس سلسلے میں کفالت کا ایک عام اصول بھی بتایا ہے، یعنی اقرباء اپنے ناداروں کے ذمہ دار ہیں ﴿وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّه وَالْمِسْكِيْنَ وَاْبنَ السَّبِيْلِ﴾ (سورت بنی اسرائیل و سورہ روم) ہمسایہ اپنے ہمسایوں کی دستگیری کرنے کا مکلف ہے (بخاری) اور مخیر حضرات کو زکوٰۃ کے علاوہ بھی مجبوروں پر نظر رکھنے کا حکم ہے۔ وَفِیْ اَمْوَالِھِمْ حُقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (سورۃ الذاریات ع ۱)