کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 8
کیونکہ حدود اللہ اور اسلامی تعزیرات کے نفاذ کی جو برکتیں ہیں وہ رنگ لائے بغیر نہیں رہ سکتیں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ اقامة حد من حدود اللّٰه خير من مطو اربعين ليلة في بلاد اللّٰه (ابن ماجه) ’ملک میں حدود اللہ میں سے ایک حد کا نفاذ ہی مسلسل چالیس راتوں کی بارش سے زیادہ خیر و برکت کا موجب ہے۔‘ اس لئے ہم سردار عبد القیوم، اسمبلی کے ارکان اور دوسرے ان رہنماؤں کی خدمت میں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں، جن کی مساعی جمیلہ سے آزاد کشمیر کو یہ سعادت نصیب ہوئی، یہ ایک ایسا مثالی کردار ہے جو پاکستان اور دوسری اسلامی ریاستوں کو دعوت مطالعہ دیتا ہے اور زبانِ حال سے کہہ رہا ہے: مسلم ہو تو اس کا ثبوت دو۔ قانون ضرورت کے تحت شریعت کی تعبیر نو؟ ہمارے ایک عزیز دوست نے ’زکوٰۃ اور عصری تقاضے‘ کے عنوان سے زکوٰۃ کے موضوع پر متعدد قسطوں میں تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ اس میں ایک جگہ فرمایا: ’خوش مال معاشرہ کا قیام اسلام کا بنیادی نظریہ ہے۔ زکوٰۃ کی فرضیت بھی اسی نقطۂ نظر سے ہوئی ہے تاہم جس معاشرہ اور ماحول میں اس عمل کو فرض کیا گیا ہے وہ آج کل کے ماحول اور معاشرہ سے قدرے مختلف تھا۔ اس سلسلہ میں ’قانون ضرورت‘ کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ شرعی قانون کی رو سے زکوٰۃ چار اشیاء پر فرض ہے۔ (۱) مویشی (۲) غلہ اور پھل (۳) نقدی (سونا چاندی) (۴) تجارت۔ پہلی تین مدات تو بحالہ قائم ہیں مگر جہاں تک مال کی تجارت کا تعلق ہے، اس کا میدان اب بہت وسیع ہو چکا ہے۔ لہٰذا اس معاملہ میں مزید غور و فکر کی ضرورت ہے۔ نصابِ زکوٰۃ بھی اسلام میں مقرر ہے لیکن اس معاملہ میں تمام علماء کا اتفاق ہے کہ یہ انفاق فی سبیل اللہ کی کم از کم مد ہے۔ زکوٰۃ کا یہ نظام جب رائج کیا گیا تو اس وقت طلب اور رسد کی ضرورت کے مطابق تھا۔ زکوٰۃ کا مقصد صرف یہ نہیں کہ مقررہ اموال میں سے معینہ مقدار ادا کر دی جائے۔ چاہے وہ معاشرتی ضروریات کا ایک فی صد ہی پورا کرے۔ زکوٰۃ کو فقراء اور محتاج لوگوں کی تمام ضروریات کا کفیل ہونا چاہئے۔ لہٰذا آج کل اس امر کی ضرورت ہے کہ ’ضرورت‘ کا اندازہ لگا کر نظام زکوٰۃ کو از سرِ نو منظم