کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 5
ہی زیر نگین تھے۔ بعد ازاں ’ہند‘ میں اسلامی نظام کے لئے شہیدین سید احمد بریلوی رحمہ اللہ اور شاہ اسمٰعیل رحمہ اللہ نبیرۂ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کے جہاد کو ناکام بنانے میں طعن وہابیت کے ہتھکنڈے سے کام لیا۔ حالانکہ سیاسی طور پر دونوں تحریکوں کا کسی قسم کا تعلق نہیں ہے بلکہ رابطہ بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ مذہبی طور پر دونوں تحریکوں میں یہ مناسبت موجود ہے کہ دونوں خالص اسلامی نظامِ حیات کے نفاذ کے لئے جہاد کی تحریکیں ہیں اور کتاب و سنت کی تعلیمات کی حد تک ان کے افکار بھی یکساں ہیں لیکن طریق کار بلکہ بہت سے تفصیلی عقائد میں آپس میں کافی مختلف ہیں۔ کسی ترجیحی مقابلہ سے قطع نظر جو سادگی اور مسئلہ توحید میں تشدد شیخ محمد بن عبد الوہاب کی دعوت و تحریک میں نظر آتا ہے وہ اسی کا خاصہ ہے۔ اگرچہ شیخ کی دعوت میں شہیدین کی طرح (جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے) کتاب و سنت کی طرف رجوع کی پر زور دعوت بھی ملتی ہے۔ شیخ نے سلفی نہج فکر کو اپناتے ہوئے توحید کے خاص پہلو ’توحید الالوہیۃ‘ پر زیادہ زور دیا ہے۔ یعنی ’معرفت حق‘ کی بجائے ’طلب حق‘ کو اصل توحید قرار دیا ہے اور معرفت حق کو وسیلہ۔ اس سلسلہ میں ائمۂ اربعہ کے توحیدی فکر خصوصاً امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور سلفی فکر کے شارح امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی خوشہ چینی کی گئی ہے۔ کیونکہ شیخ کا خاندان ’حنبلی مکتبہ فکر‘ سے وابستہ رہا ہے۔ اگرچہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی متابعت میں شیخ کتاب و سنت کی تعبیر میں حنبلی فقہ کے پابند نہیں ہیں آخر میں شیخ کے لئے مصر کے مشہور ترقی پسند ادیب ’’طٰہ حسین‘ کی ایک بحث ’جزیرۂ عرب میں ادبی کام‘ سے اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔ مسٹر طٰہ حسین اس تحریک کو دین و سیاست کا مجموعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ مذہب نیا بھی ہے اور پرانا بھی۔ نیا (اس دور کی دینی اور سیاسی حالت) معاصرین کے اعتبار سے اور پرانا حقیقت نفس الامری کے اعتبار سے کیونکہ یہ مضبوط دعوت ایسے خاص پاکیزہ اسلام کی طرف ہے جو شرک اور بت پرستی کے ہر اختلاط سے پاک ہے۔ پھر طریقِ کار کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عجیب اتفاق ہے کہ اس نئے مذہب کو نجد میں ہوبہو وہی حالات میسر آئے جو حجاز میں (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے) اسلام کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ مثلاً اس کے داعی نے نرمی سے دعوت کا آغاز کیا۔ جب لوگوں نے قبول کی تو بر سر عام اس کا اظہار ہوا۔ اسے پریشانی لاحق ہوئی اور خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر یہی داعی خود کو برادریوں کے امراء رؤسا کے روبرو پیش کرتا ہے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو قبائل پر پیش کیا پھر اس