کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 47
صفحات : ۳۸۴ صفحات
قیمت : ۱۱ روپے
ملنے کا پتہ : ادارہ ثقافت اسلامیہ (کلب روڈ) لاہور
اردو زبان میں اپنی نوعیت کی یہ بالکل پہلی کوشش ہے۔ جس میں بلبن۶۸۶ھ سے لے کر اورنگ زیب عالمگیر ۱۱۱۸ھ کے عہد تک کی ان تمام فقہی مساعی کا تعارف پیش کیا گیا ہے جو پاک و ہند میں انجام دی گئیں۔
اس میں فقہائے عظام، ان کی فقہی تخلیقات اور ان حکمرانوں کا ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے کسی درجہ میں بھی ان سے دلچسپی رکھی یا سرپرستی کی۔ خاص کر مندرجہ ذیل کتب کا تفصیلی تعارف دیا گیا ہے۔
فتوایٰ غیاثیہ، فتاوی قراخانی، فوائد فیروز شاہی، فتاوی تا تارخانیہ، فتاویٰ حمادیہ، فتاویٰ ابراہیم شاہی، فتاویٰ امینیہ، المتانۃ فی حرمۃ الخزانۃ، فتاویٰ بابری، فتاویٰ عالمگیری، مؤخر الذکر فتاویٰ پر سب سے زیادہ روشنی ڈالی گئی ہے اور نہایت خوب ہے۔
شروع کتاب میں مرتب موصوف نے ایک تفصیلی مقدمہ تحریر فرمایا ہے جو خاصہ معلوماتی ہے جس میں فقہ کے لغوی اور اصطلاحی معنی، اس کے ماخذ، مراکز فقہ اور اسلاف میں اصحابِ فقہ کا مختصر ذکر کیا گیا ہے۔
فاضل مرتب نے فقہ کی جو تعریف کی ہے اس سے پوری طرح انشراح نہیں ہوتا، بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے محترم دوست نے کنز و قدوری جیسی متون کو سامنے رکھ کر فقہ کو مشخص کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔
اسی طرح موصوف نے ائمۂ اربعہ کے طریق استنباط سے جو بحث فرمائی ہے اس میں بھی متوقع جامعیت نہیں پائی جاتی۔
بعض احباب نے مصنف سے شکوہ کیا ہے کہ: انہوں نے اہل حدیث مکتبِ فکر کی فقہی مساعی کا ذکر نہیں کیا حالانکہ اس سلسلہ کی ان کی خدماتِ جلیلہ ناقابلِ فراموش ہیں۔ ہمارے نزدیک اس کی بھی کچھ وجوہات ہیں، ایک تو خود اہل حدیث حضرات نے پاک و ہند میں اپنے تشخص کی تعیین ولی اللٰہی دور اور سید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ سے کی ہے، جو بجائے خود محلِ نظر ہے۔ مصنف نے اپنے موضوع کو ۱۱۱۸ھ تک محدود رکھا ہے۔ ظاہر ہے، اس صورت میں خدمات اہلِ حدیث کا تذکرہ