کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 4
اور بصرہ وغیرہ کے مشہور علماء کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا جن میں سے ایک علامہ محمد حیات رحمہ اللہ محدث سندھ بھی ہیں جو اُں دنوں مدینہ منورہ میں ’سنت و حدیث‘ کے مسلمہ امام تھے۔ اس تلمذ کے اعتبار سے گویا شیخ کو ایک نسبت اس وقت کے ہندوستان اور موجودہ پاکستان سے بھی ہے۔ آپ نے دورانِ تعلیم ہی میں پہلے ’بصرہ عراق‘ سے پھر واپس آ کر نجد کے علاقہ ’حریملا‘ سے اپنی دعوت کا آغاز کیا جہاں ان دنوں شیخ کے والد عبد الوہاب شہر کے قاضی (جج) کے عہدہ پر فائز تھے۔ دعوت ہی کے سلسلہ میں شیخ بعد ازاں نجد کے مشہور قصبوں ’عیینہ‘ پھر ’درعیہ‘ میں منتقل ہوتے رہے۔ آپ کی دعوت کی بنیاد ’توید‘ تھی جس کا شعار ’کلمہ طیبہ‘ اور ابتدائی نکات رب، نبی اور دین کے وہی تین اصول تھے جن کا موت کے بعد پہلی گھاٹی ’قبر‘ میں سوال ہو گا۔ دعوت کی وضاحت کے لئے آپ نے کتاب التوحید کشف الشبہات اور ثلاثہ اصول وغیرہ کتابیں بھی لکھیں جو آج کل تقریباً سارے سعودی عرب میں تعلیم کے مختلف درجوں میں بطور نصاب مقرر ہیں۔ چونکہ آپ نہایت متقی، پاکباز اور نفسیاتی تاثیر کے مالک تھے اور اوّل و آخر کتاب و سنت اور انبیاء کا طریقۂ کار اپناتے تھے اس لئے دور و نزدیک آپ کی دعوت کا خوب چرچا ہوا۔ اس دعوت کو جہاں عوام و حکام میں زبردست معاون و انصار ملے وہاں اسے جاہلوں، حاسدوں اور سیاسی طور پر بڑی بڑی سازشوں کا شکار ہونا پڑا۔ حریملا میں جب سماج دشمن عناصر نے آپ کو اپنی راہ کی رکاوٹ دیکھا تو قاتلانہ حملہ کیا لیکن اللہ نے آپ کو بچالیا۔ پھر عیینہ میں ایک زانی عورت کو جس نے بہ ہوش و حواس اپنے جرام کا افرار کیا تھا حاکم وقت سے سنگسار کرانے پر رنگیلوں کی سازش سے علاقہ بدر ہوئے حتیٰ کہ قتل کی ایک سازش سے بچتے ہوئے درعیہ کی طرف ہجرت کی۔ وہاں کا حاکم محمد بن سعود جو حسنِ اخلاق اور پاکبازی میں معروف تھا آپ کی دعوت سے متاثر ہو کر تعاون پر تیار ہوا اور اس نے آپ سے ’مستقل رفافت‘ کی شرط پر بھرپور تعاون کا عہد کیا۔ آج تک اسی رفاقت کے نتیجہ میں آلِ شیخ رحمہ اللہ اور آل سعود کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کلمہ طیبہ اور تلوار کے اس جوڑ سے آپ کی دعوت کو جو فروغ ہوا اس نے دور دراز تک آپ کی دعوت کا تہلکہ مچا دیا۔ جس پر سیاسی طور پر بدنام کرنے ک لئے مخالفین نے آپ کو ایک نئے مذہب کا بانی قرار دے کر اسے ’وہابیت‘ کا نام دیا جو آج تک مذہبی سطح پر ایک گالی سمجھی جاتی ہے۔ اس میں اگرچہ کسی حد تک ’اخوانِ یوسف‘ کا بھی ہاتھ ہے تاہم ’وہابیت‘ کے طعن سے پراپیگنڈہ کرنے میں زیادہ کار فرمائی برطانوی سامراج کی ہے جس نے پہلے خلیج فارس کے بحری مرکز ’رأس الخیمہ‘ کے قرصی باشندوں سے ٹکر لی جو سعودیوں کے