کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 38
لڑوں گا جب تک کہ یہ لوگ اونٹ کے پاؤں باندھنے کی وہ رسی بھی جو یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں زکوٰۃ میں دیا کرتے تھے دینے پر آمادہ نہیں ہو جائیں گے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے پہلے اسلامی معاشرہ کا قیام ضروری ہے کیونکہ جب تک صحیح اسلامی معاشرہ قائم نہیں ہو جائے گا، اس وقت تک اسلامی قانون کے نفاذ کا تجربہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا ہے۔ بلاشبہ ان حضرات کی یہ رائے اپنے اندر وزن رکھتی ہے اور ہمیں ان کے خلوص پر بھی کوئی شبہ نہیں ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر صحیح اسلامی معاشرہ قائم کس طرح ہو گا؟ ظاہر بات ہے کہ گزشتہ کی صدیوں سے اسلامی نظام قائم نہ رہنے کی وجہ سے آج ہمارا معاشرہ انحطاط کی جس طرح پر پہنچ چکا ہے اسے بدلنے کے لئے ایک ایسی ہمہ گیر تحریک کی ضرورت ہے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی ہو اور اس مقصد کے لئے جہاں دوسرے اقدامات ضروری ہیں وہاں خود اسلامی قانون کا نفاذ بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ جیسا کہ پہلے بھی گزارش کیا جا چکا ہے کہ قانون، قطع نظر اس کے کہ وہ صحیح ہے یا غلط، انسانی زندگی کا رُخ متعین کرنے کے لئے ایک مؤثر قوت ماخذہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے صحیح اسلامی معاشرہ کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے امور کے علاوہ معاشرے کو اسلامی رُخ پر ڈالنے والی اس مؤثر قوت نافذہ سے بھی کام لیا جائے اور اس پہلو سے دیکھا جائے تو آزاد کشمیر میں اسلامی قانون کا نفاذ صحیح اسلامی معاشرے کی تشکیل اور مکمل اسلامی نظام کے قیام کی راہ میں ایک تاریخی قدم کی حیثیت رکھتا ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ صرف اسی پر اکتفاء نہ کیا جائے بلکہ ساتھ ساتھ دوسرے متعلقہ امور کی طرف بھی بھرپور توجہ دی جائے۔ آزاد کشمیر میں اسلامی قانون کے نفاذ کی اہمیت کا صحیح اندازہ کرنے کے لئے اس کے تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنا بھی ضروری ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ برطانوی استعمار نے برصغیر پر اپنے جارحانہ تسلط کو دوام بخشنے کے لئے جب مسلمانوں کا تعلق ان کے دین و تہذیب اور نظام حیات سے منقطع کرنے کے لئے کیا تو ان کی اجتماعی زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح اس سامراجی قوت نے اسلامی قانون پر بھی ڈاکہ ڈالا۔ کیونکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ جب تک مسلمانوں کی زندگی کا صحیح رُخ متعین کرنے والی اِس مؤثر قوت نافذہ کو ختم نہیں کیا جاتا، ان کا اسلام سے تعلق منقطع نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں کے دین و ایمان کے خلاف یہ سازش کوئی ایسی بات نہیں تھی جسے ٹھنڈے پٹیوں برداشت کر لیا جاتا۔ چنانچہ عام مسلمانوں نے بالعموم اور علمائے کرام نے بالخصوص اس سازش کے خلاف زبردست احتجاج کیا جسے تشدد کے ذریعے دبا دیا گیا۔ لیکن یہ کوئی ایسا جذبہ نہیں تھا جسے تشدد کے ذریعے ختم کیا جا سکتا چنانچہ اسلامی نظام کے احیاء اور اسلامی قانون کے نفاذ کے اس جذبے نے ایک دوسری اور نسبتاً زیادہ مؤثر