کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 37
اسلامی قانون کے باقاعدہ نفاذ سے عامۃ المسلمین کو اسلامی قانون کی اہمیت، تقاضوں اور دونوں جہاں کی سرفرازی کا ضرور احساس ہو جائے گا اور یہ چیز ان کی اسلام سے غیر معمولی وابستگی کا سبب بن جائے گی۔ اب مناسب ہے کہ محکمہ امور دینیہ حکومت آزاد کشمیر کے زر اہتمام آزاد کشمیر کے طول و عرض میں علمائے کرام کے دعوتی و تبلیغی دوروں جلسہ ہائے عام، مجالس مذاکرہ اور خصوصی تقاریب کے انعقاد اور اسلامی قانون سے متعلق خصوصی قسم کے بیجوں، پوسٹرں اور ہینڈ بلوں کے وسیع پیمانے پر تقسیم کے لئے ایک مربوط پروگرام تیار کیا جائے تاکہ جب اسلامی قانون کا باقاعدہ نفاذ عمل میں آجائے تو ریاست کے ہر شہری کو یہ معلوم ہو کہ اسلامی قانون پر کامیابی سے عملدرآمد کے لئے اس پر کون کون سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور وہ ان ذمہ داریں سے کس طرح عہدہ بر آ ہو سکتا ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ آزاد کشمیر میں اسلامی قانون کا نفاذ حیح اسلامی معاشرہ کے قیام کی راہ میں ایک اہم اور مؤثر قدم ثابت ہو گا کیونکہ قانون، قطع نظر اس کے کہ وہ صحیح ہے یا غلط، انسانی زندگی کا رخ متعین کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔اگر قانون صحیح ہے تو انسانی زندگی کا رخ بھی صحیح سمت میں ہو گا اور اگر خدانخواستہ معاملہ اس کے برعکس ہے تو نتیجۃً انسانی زندگی کا رخ بھی لازمی طور پر غلط سمت میں ہو گا اور بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ اس آسمان کے نیچے خدا کے نازل کردہ قانون سے زیادہ صحیح کوئی قانون نہیں ہو سکتا ہے۔ اس لئے زندگی کو صحیح اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے اسلامی قانون کا نفاذ ناگزیر ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اسلامی قانون کے نفاذ کو اسلامی حکومت کی اولین اور بنیادی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے اور اس سے گریز کی راہیں اختیار کرنے والوں کے بارے میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ وہ ظلم و فسق اور کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔ چنانچہ سورہ مائدہ میں فرمایا گیا ہے کہ:
﴿وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ ﴾
یعنی قانونِ الٰہی کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے لوگ کفر کرتے ہیں۔
اسی سورہ کی دوسری آیات میں ایسے لوگوں کو ظالم و فاسق قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی قرآن حکیم کی بیسیوں دوسری آیات ہیں، جن سے اسلامی قانون کی اہمیت اور تقاضوں کا پتہ چلتا ہے۔
ان آیاتِ کریمہ سے یہ بات دو اور دو چار کی طرح نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ اسلامی قانون کے نفاذ کا مسئلہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جس کے حل ہونے یا نہ ہونے سے کوئی خاص فرق نہ پڑتا ہو۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنی نوعیت اور اہمیت کے اعتبار سے یہ مسئلہ خالصۃً کفر و اسلام کا مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان اس مسئلہ میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خلیفہ اول جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مانعینِ زکوٰۃ کے خلاف اعلان جہاد کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا تھا کہ خدا کی قسم میں ان کے خلاف اس وقت تک