کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 35
میں مسلمان ہوں میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت جب حد اعتدال سے تجاوز کر جائے تو دنیا کے لئے ایک قسم کی لعنت ہے۔ لیکن دنیا کو اس کے مضر اثرات سے نجات دلانے کا طریق یہ نہیں کہ معاشی نظام سے اس قوت کو خارج کر دیا جائے۔ جیسا کہ بالشویک تجویز کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کے لئے قانون میراث اور زکوٰۃ وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے اور فطرتِ انسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی طریق قابل عمل بھی ہے۔ روسی بالشوزم یورپ کے ناعاقبت اندیش اور خود غرض سرمایہ داری کے خلاف ایک زبردست رد عمل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ داری اور روسی بالشوزم دونوں افراط و تفریط کا نتیجہ ہیں اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہم کو بتائی ہے اور جس کا میں نے اوپر اشارۃً ذکر کیا ہے۔ شریعت حقہ اسلامیہ کامقصود یہ ہے کہ سرمایہ داری کی بنا پر ایک جماعت دوسری جماعت کو مغلوب نہ کر سکے اور اس مدعا کے حصول کے لئے میرے عقیدے کی رو سے وہی راہ آسان اور قابل عمل ہے۔ جس کا انکشاف شارع علیہ السلام نے کیا ہے، اسلام سرمایہ کی قوت کو معاشی نظام سے خارج نہیں کرتا۔ بلکہ فطرت انسانی پر ایک عمیق نظر ڈالتے ہوئے اسے قائم رکھتا ہے۔ اور ہمارے لئے ایک ایسا معاشی نظام تجویز کرتا ہے۔ جس پر عمل پیرا ہونے سے یہ قوت کبھی اپنی مناسب حدود سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے اقتصادی پہلو کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ ان کو معلوم ہوتا کہ اس خاص اعتبار سے اسلام کتنی بڑی نعمت ہے۔ میرا عقیدہ ہے فاصبحتم بنعمته اخوانا۔ میں اسی نعمت کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ کسی قوم کے افراد صحیح معنوں میں ایک دوسرے کے اخوان نہیں ہو سکتے۔ جب تک کہ وہ ہر پہلو سے ایک دوسرے کے ساتھ مساوات نہ رکھتے ہوں اور اس مساوات کا حصول بغیر ایک ایسے سوشل نظام کے ممکن نہیں جس کا مقصود سرمایہ کی قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھ کر مذکورہ بالا مساوات کی تخلیق و تولید ہو اور مجھے یقین ہے کہ خود روسی قوم بھی اپنے موجودہ نظام کے نقائص تجربے سے معلوم کر کے کسی ایسے نظام کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ جس کے اصول اساسی یا تو خالص اسلامی ہوں گے یا ان سے ملتے جلتے ہوں گے موجودہ صورت میں روسیوں کا اقتصادی نصب العین خواہ کیسا ہی محمود کیوں نہ ہوں ان کے طریق عمل سے کسی مسلمان کو ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ ہندوستان اور دیگر ممالک کے مسلمان جو یورپ کی پولیٹیکل اکانومی پڑھ کر مغربی خیالات سے فوراً متاثر ہو جاتے ہیں ان کے لئے لازم ہے کہ اس زمانے میں قرآن کریم کی اقتصادی تعلیم پر نظر غائر ڈالیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی تمام مشکلات کا حل اس کتاب میں پائیں گے۔ لاہور کی لیبر یونین کے مسلمان ممبر بالخصوص اس طرف توجہ کریںَ مجھے ان کے اغراض و مقاصد کے ساتھ دلی ہمدردی ہے مگر مجھے امید ہے کہ وہ کوئی ایسا طریق عمل یا نصب العین اختیار نہ کریں گے جو قرآنی تعلیم کے منافی ہو۔ محمد اقبال بيرسٹرایٹ لاء ، لاہور