کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 33
میں مصروف رہتے ہیں کہ مذہب اور سائنس دو متضاد چیزیں ہیں۔ ان کا سخت مقابلہ ہے جس میں فتح سائنس کی ہو گی۔ میں یہ ہرگز نہیں مانتا۔ میرا عقیدہ ہے کہ مذہب نہ صرف فتح یاب ہو گا بلکہ انسان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ فتح یاب ہو۔ دیکھا جائے تو تمام مذاہب کی بنیاد ایک ہی ہے۔ سائنس میں جو انکشافات ہوئے ہیں۔ ان سے ثابت ہو چکا ہے کہ فضا کے تاروں سے لے کر ایٹم تک ساری کائنات چند اٹل قوانین کے زیرِ تسلط ہے اور ایک زبردست قوت موجود ہے جس نے یہ قانون بنائے ہیں۔ انسان کو جانوروں سے بلند کر کے اشرف المخلوقات کا رتبہ بخشا گیا۔ اس فرق کو نمایاں کرنے کے لئے انسان کو وہ اعلیٰ جوہر عطا ہوا ہے جس سے ضمیر، روحانیت اور تصوّریت پیدا ہوئی۔ ان ملکوتی جذبوں کے ہوتے ہوئے بھلا اس قادر مطلق کے وجود سے کس طرح انکار کیا جا سکتا ہے۔ جس کا لمس ہر جگہ محسوس ہو رہا ہے۔ جس کی کارکردگی کائنات کی ہر چیز سے عیاں ہے۔ یہ دہریے انسانی ترقی و بہبود کو مادیت کے پیمانے سے ناپنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے اگر ٹھوس مادیت ہی سب کچھ ہے تو انسان کے دل میں ایمان اور روحانیت کے جذبے کس طرح آئے؟ بلند اخلاقی، صاف دلی اور نیک نیتی کی خواہش کیسے پیدا ہوئی؟ یہ سب خوبیاں جن پر تعمیر و اصلاح کی اساس رکھی گئی ہے۔ خود بخود کہاں سے آگئیں۔ زندہ اور ترقی پذیر قومیں خدا پر اعتماد رکھتی ہیں۔ اس کی ہستی سے منکر ہونا اور ایمان کی کمی انحطاط پذہیر قوموں کی نشانیاں ہیں۔ اس ساری بحث سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس طرح سائنس ترقی کرتے ہوئے منزل بہ منزل مادی فطرت کی نقاب کشائی کرتی چلی جا رہی ہے۔ اسی طرح مذہب بھی عروج و ارتقاء کی منزلیں طے کر سکتا ہے لیکن یہ عروج وارتقاء سے یقیناً مختلف ہو گا۔ سائنس جس حقیقت کی تلاش میں ہے اس حقیقت کو مذہب نے پا لیا ہے۔ اسلام نے علی الاعلان یہ دعوےٰ کیا ہے کہ خدا کی ہستی ایک اور وحدانیت کی جس طرح تشریح و توجیہ کی ہے وہ ایسی جامع اور اکمل ہے کہ فلسفہ اور سائنس اس کا ابطال نہیں کر سکتے۔ اَن دیکھے خدائے واحد کی ہستی جس کو اسلام پیش کرتا ہے۔ اس کا مقصد بنی نوع انسان کو طبیعی پابندیوں اور حیاتی کائنات سے آزادی بخشنا ہے۔ خدا کو تمام معیاروں کا غیر مرئی ماخذ قرار دینا حیاتِ انسانی کو ارتقائی اور متحرک بنانا ہے۔ انسان اس وقت تک موجودات کا معیار کمال، اشرف المخلوقات اور زمین پر خدا کا نائب نہیں ہو سکتا جب تک وہ موجودات کی حلقہ بگوشی سے چھٹکارا نہ پائے اور اَن دیکھے نصب العین کی بلندیوں کی طرف عروج نہ کرے۔