کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 32
فساد کا باعث بن جاتی ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ مذہب اور سائنس کو پہلو بہ پہلو چلایا جائے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا ایسا مذہب ہے جو سائنس کے ہم پہلو ہو کر چل سکے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ مذاہب میں سے کوئی بھی تو اس قابل نہیں کہ اس کے سامنے ٹھہر سکے۔ اگر کوئی مذہب ٹھہر سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہی ہے کیونکہ جیسا کہ پیچھے ذکر ہو چکا ہے کہ سائنسی نظریۂ ارتقاء نے اسلام کے مفکر کو مستقبل کے یقین اور اطمینان کی دولت سے مالا مال کر کے جہاں اسے رجائیت پسند بنایا وہیں یورپ کے مفکر کو اس دولت سے محروم کر کے قنوطیت پسند بنایا۔ لہٰذا ہم بلا جھجک یہ کہتے ہیں کہ صرف اسلام ہی ایسی خوبی رکھتا ہے کہ یہ سائنس کے دوش بدوش چل کر کاروان انسانیت کا جادۂ ارتقاء پر آگے بڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہو سکے۔ سائنس نے کائنات کے ایک بڑے حصے کو مسخر کر دیا ہے لیکن انسان اس تسخیر کائنات سے کیا کام لیتا ہے؟ اس کا تعین فکری ضابطے اور اخلاقی رویے کریں گے اور یہ ضابطے اور رویے سب سے بہتر صورت میں اسلام کے پاس ہیں۔ کائنات کی ساری ماڈرن تھیوریاں (Modern Theories) ایک نہایت ہی چھوٹے اور نہ دکھائی دینے والے ذرے پر مبنی ہیں جسے الیکٹرون (Electron) کہتے ہیں۔ الیکٹران کیا ہے؟ کوئی سائنسدان کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ۔ چنانچہ ایک ذرہ بھر مفروضے پر تکیہ کر کے جس کی ہیئت نامعلوم ہے۔ سائنسدان کل کائنات کا سفر کر رہے ہیں۔ سائنس کی بنیاد عقل پر ہونے کے باوجود اگر سائنسدان ایسا کر سکتے ہیں تو کیا انسان ایک ایسا مفروضہ اپنی روح کے آرام، اپنی سائیکی Psyche کی بقا اور اپنے شعور کی جلا کے لئے نہیں کر سکتا جس کا آرام کلی طور پر انسان کی اپنی ذات ہی کو ہو؟ اور وہ مفروضہ کیا ہے؟ یہی کہ ’خدا ہے‘ اگر انسان آج سے اس مفروضے پر زندگی بسر کرنا شروع کر دے تو اس کے لئے اس سے زیادہ اور کسی مفروضے کی ضرورت نہ ہو گی۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی شخص ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا ہے تو وہ عقل کا اندھا ہے۔ خدا کے وجود سے انکار عقل کی بدولت نہیں ہو سکتا۔ ہم خدا کے وجود سے انکار اسی وقت کر سکتے ہیں جب ہم نے کائنات کا ایک ایک کونہ چھان لیا ہو اور ہمیں کہیں بھی خدا نظر نہ آیا ہو۔ اب یہ دعویٰ کون کو سکتا ہے؟ اور جو کرتا ہے عقل اس کے دعوے کو تسلیم نہیں کرے گی۔ بیسویں صدی کے سائنسدان جس قدر حقیقتوں کے قریب پہنچتے جا رہے ہیں، اسی قدر خدا کے وجود پر ایمان لے آئے ہیں۔ اب الحاد ایک سائنسی حقیقت نہیں رکھتا۔ چنانچہ ہر برٹ ہوور کہتا ہے: ’’جوں جوں سائنس میں ترقی ہوئی ہے، ایک خاص گروہ زور پکڑتا گیا۔ اس فرقے میں دہریہ فلسفی شامل ہیں جو کہتے ہیں، خدا جیسی موہوم ہستی کا ادراک محال ہے۔ یہ لوگ ہر وقت بحث مباحثے