کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 31
مبتلا ہو گیا جنہوں نے اس کے دل میں زندگی کے اعلیٰ مقاصد سے نفرت اور خود زندگی سے بیزاری پیدا کر دی۔
چونکہ ہمارا مغربی تعلیم یافتہ طبقہ مذہب کی گہرائیوں سے واقف نہیں تھا لہٰذا یورپ کے سائنسی فلسفے نے جس کی بنیاد سراسر مادہ پر مبنی ہے اور جس میں مذہب کے خلاف شدید نفرت موجود ہے، اسے خاص طور پر متاثر کیا، لہٰذا اس نے یہ کہنا شروع کیا کہ مذہب سے انسان کے قومی، معاشرتی اور اقتصادی مسائل پوری طرح حل نہیں ہو سکتے اور یہ کہ مذہب ایک فرسودہ چیز ہے جو سائنسی اور انسانی ارتقاء کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے چنانچہ اس تصور کے طبعی نتیجے میں مادہ پرستوں کی طرف سے مذہب کے حامیوں کو بے عقلی، جمود، رجعت پسندی اور تنگ نظری کے طعنے پوری بے تکلفی اور تسلسل کے ساتھ عنایت کیے جاتے ہیں لیکن اگر مرعوبیت سے دامن بچا کر غور کیا جائے تو یہ تصور بجائے خود بے دانشی او عقل دشمنی کا شاہکار ہے اس کے پیچے کوئی ٹھوس اور سائنٹیفک استدلال نہیں بلکہ اس کا سارا زور و شور آدمی کی ان نفسانی خواہشات اور جسمانی داعیات کے اُبال سے عبارت ہے جس پر کسی بھی قسم کی پابندی اور قید و بند اور ذمہ داری کا کوئی بوجھ آج کا وہ انسان (جسے انسان کہنا بھی انسانیت کی وہین ہے) پسند نہیں کرتا جسے مادہ پرستانہ افکار نے تمام اخلاقی و انسانی قدروں سے کاٹ دیا ہو۔ وہ گوناگوں عوامل کے تحت جس ظاہر پرستی کا غلام بن جاتا ہے وہی اسے اس بات پر اکساتی ہے کہ مذہب کو تردید و تحقیر کا نشانہ بنائے اور مذہب کے علمبرداروں کو عقل و تدبر سے محروم قرار دے کیوں کہ مذہب اسے وہ لا نہایت اور لا محدود آزادی عطا نہیں کرتا جس کے سایۂ عاطفت میں اس کے بھڑکے ہوئے جذبات، مچلتی ہوئی خواہشات اور بے کراں حرص و ہوس کو کھل کھیلنے کے مواقع میسر آسکیںَ بقولِ سید کرامت حسین جعفری ’چاہے پرانے ادوار کا مطالعہ کیا جائے چاہے دورِ حاضر کا، جن معاشروں میں جب کبھی خدا کا اعتماد ختم ہو گیا ان میں نفسیاتی اور اخلاقی دونوں طرح کی خرابیاں زیادہ پھیلی ہیں۔ دوسری طرف آپ گہرائی میں جائیں تو یہ دیکھیں گے کہ ہر وہ فرد جس پر غلط خواہشات کا دباؤ زیادہ بڑھ جاتا ہے اور وہ لازماً انہیں پورا کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے راستے سے ضمیر کی رکاوٹ ہٹانے کے لئے خدا کا انکار کر دیتا ہے یا اس کے تصور میں تحریف کر دیتا ہے۔ آپ اپنی زندگی میں ایسے جتنے لوگوں کا مشاہدہ کر چکے ہوں ان سب کا تصور ذہن میں تازہ کر کے دیکھ لیجئے کہ یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔ ٹھیک یہی حال قوموں اور معاشروں کا ہے۔ وہ جب اخلاقی لحاظ سے غلط راستوں کو پسند کر لیتی ہیں تو پھر ضمیر کی کشمکش سے نجات پا کر کھلی پیش قدمی کرنے کے لئے تصورِ خدا سے نجات حاصل کرتی ہیں۔ تمام ملحد اقوام اخلاقی بحران سے دوچار ہو کر رہتی ہیں۔ وہ یا تو کھلم کھلا الحاد کی علمبردار ہوتی ہیں یا خدا کا ایسا تصور اختیار کرتی ہیں جو ان کی من مانی زندگی میں خلل انداز ہونے والا نہ ہو۔
اس ساری بحث سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ سائنس کی ملحدانہ ترقی انسانیت کے لئے