کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 30
کائنات کے نظم و ضبط میں جب عقلی طور پر خدا کو ایک مخصوص درجہ حاصل ہو جاتا ہے تو انسان اس کی حقیقت پانے کے لئے بے چین ہو جاتا ہے لیکن اس کے لئے بھی وہ عقلیت کا راستہ اختیار کر تا ہے حالانکہ حقیقت کو پانے کے لئے عقلیت کا راستہ کامیاب راستہ نہیں، مذہب ہی کا راستہ اس کے لئے موزوں ہے۔ عقلیت کا استعمال سائنس یا علم کے لئے کسی بہت بڑے خطرے کا باعث نہیں ہوتا۔ سائنس کا محل عقلیت کے فریب کی بنیاد پر بھی کھڑا رہ سکتا ہے۔ مگر مذہب میں ایسا نہیں ہو سکتا لہٰذا یہیں سے اس قوم کا فکری اور ذہنی بگاڑ شروع ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ زندگی اور کائنات کے بارے میں اس کا زاویۂ نگاہ بدلنے لگتا ہے۔ انسان اپنی عقل کو غیر محدود اور اپنے علم کو یقینی اور قطعی تصور کر لیتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کائنات اور اس کے مظاہر کے بارے میں ابتدائی تصورات سے گریز کا رجحان شروع ہو جاتا ہے اور وہ اپنا ایک علیحدہ طرزِ زندگی (Code of Life) تصنیف کر لیتی ہے۔ اس قوم کے ذہنوں میں آہستہ آہستہ یہ نظریہ جڑ پکڑنے لگتا ہے کہ یہ کائنات اپنے پیچھے کوئی ارادہ، کوی شعور، کوئی منصوبہ اور کوئی اقتدار نہیں رکھتی۔ یہ کائنات مادے کا ایک ظہور ہے اور اس میں جو کچھ ہو رہا ہے ایک حادثے کے طور پر ہو رہا ہے۔ یہاں زندگی بھی مادے کے ایک تقاضے کی حیثیت سے خود بخود نمودار ہو گئی ہے اس زندگی نے جس طرح اور بہت سے پیکر اختیار کیے ہیں ایک پیکر وہ بھی اختیار کر لیا جس کا نام انسان پایا۔ انسان کا مقصد زندگی اپنی خواہشات کی تکمیل کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ ایمان و ایقان کی جگہ مجرد عقلیت پسندی اور الحاد کے اس نظریے پر کھڑی ہونے والی تہذیب دنیا کے لئے فساد کا باعث بن جاتی ہے اور قوم اخلاقی انحطاط کے راستے پر گامزن ہو جاتی ہے۔ آج کا موجودہ انسان بھی اپنے ملحد نظریات کی وجہ سے ایک مہلک ابتلاء میں پھنسا ہوا ہے۔ موجودہ یورپ کا عام فرد عقلیت کے فریب میں گھرا ہوا ہونے کی وجہ سے زندگی کی روحانیت سے واقف نہیں۔ اس کے خیالات کی کی دنیا میں ایک شدید کش مکش برپا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس کے نظریۂ ارتقاء نے اسلام کی دنیا میں جہاں رومی کے اس تخیل کو پیدا کیا کہ انسان کے لئے حیاتیاتی اور نفسیاتی لحاظ سے ایک بہت وسیع اور ہمیشہ بڑھنے والا مستقبل ہے جسے حاصل کرنے کے لئے اسے جدوجہد کرنی چاہئے وہیں اسی نظریۂ ارتقاء نے یورپ میں یہ تخیل پیدا کیا کہ انسان کے لئے اس کی موجودہ حالت ہی سب کچھ ہے گویا ایک ہی نظریے نے اسلام کے مفکر کو مستقبل کے یقین اور اطمینان سے نواز کر رجائیت پسند بنا دیا اور یورپ کے مفکرین کو اس یقین سے محروم کر کے ان میں قنوطیت پیدا کی۔ چنانچہ یورپ کے مفکر نے جب زندگی کو مادے تک محدود سمجھ لیا اور اسی میں اٹک کر رہ گیا تو وہ خود غرضی، ہوشِ زر اور مادی فوائد جیسی مہلک بیماریوں میں