کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 29
مبتلا ہے اس کا مداوا سوائے مذہب کے اور کسی کے پاس نہیں ہے۔ مادیت پرستی خود غرضی کو جنم دیتی ہے اور یہی خود غرضی انسان کی موجودہ ذہنی کش مکش کا باعث ہے۔ فرانس کا ملحد فلسفی رینان Renon اپنی ایک کتاب ’The History of Religions‘ میں خود اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ مادیت ایک فریب اور دھوکہ کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا ہمیں لا محالہ مذہب کی اہمیت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر موجودہ زمانے تک کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ مذہب ہی ایک ایسی فعّال قوت ہے جو انسانیت کی ترقی اور فلاح کی علمبردار ہے۔ قرآن کریم میں ایسی بیشتر اقوام کا ذکر ملتا ہے جو تہذیب و تمدن میں اپنی مثال آپ تھیں لیکن جب بھی انہوں نے اپنی عقل کو لا محدود اور اپنی بصیرت کو بڑا جان کر مذہب کی مسلمہ اہمیت سے انکار کیا تو وہ فکر و نظر کی تاریکیوں میں بھٹک کر رہ گئیں۔ اگر ہم گزشتہ اقوام کے عروج و زوال کے فکری اسباب پر غور کریں تو ہم دیکھیں گے کہ ہر تہذیب اور معاشرے کو اپنی ابتداء سے انتہاء تک تین مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ ابتدائی زمانہ۔ کمالِ عروج کا زمانہ اور اس کے بعد زوال۔ اپنے ابتدائی عروج کے زمانہ میں وہ تہذیب اس نظریے کی حامل رہی کہ یہ کائنات ایک ارادے اور ایک شعور کا کرشمہ ہوئی ہے اور ارتقاء کا عمل ایک منظم طریق سے ہو رہا ہے۔ زندگی ایک شرارہ ہے جو اس کائنات کے ربّ اور الٰہ کی طرف سے جب مادے کو ودیعت کیا جاتا ہے تو اس میں ایسی صلاحیتیں اُبھر آتی ہیں جو مادے کے اپنے خواص نہیں ہیں۔ انسان محض ایک ترقی یافتہ حیوان (Social Animal) نہیں ہے بلکہ اسے اخلاقی حس اور خیر و شر کی تمیز کی صلاحیت عطا کر کے اسے اس کے خالق نے اپنی خلافت و نیابت کے لئے مامور کر دیا ہے۔ اب اس کا مقصد وجود ربّ کائنات اور رب الناس کی رضا کے مطابق زندگی کی تعمیر کرنا ہے اور یہ اس کے لئے پوری طرح ذمہ دار اور جواب دِہ ہے۔ اس نظریے کی رو سے وہ قوم مادے کی تسخیر اور اس کو انسانی صورتوں کے لئے استعمال کرنے کے طریقے دریافت کرتی ہے۔ وہ زندگی کی پوری وسعتوں سے آگاہ ہو کر ارتقائے حیات کی شاہراہ پر گامزن ہو جاتی ہے۔ ابتداء میں وہ قوم مذہب کو ایک عقیدے کی شکل دے دیتی ہے لیکن شاہراہِ ارتقاء پر ایک موڑ ایسا آتا ہے، جب نہ صرف مذہب کو عقیدے کے طور پر تسلیم کر لیا جاتا ہے بلکہ عقلی طور پر اس کی حقانیت بھی پہچانی جاتی ہے اور اس کے آخری سر چشمہ اور مصدر کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مذہب کی اس ترتیب و تشکیل میں کائنات کے نظم و ضبط میں منطقی طور پر خدا کو ایک مخصوص درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ دور اس قوم کے کمالِ عروج کا زمانہ ہوتا ہے۔ اس دور میں ایمان و ایقان کی بنیادوں پر تہذیب کی عمارت اور زیادہ پختہ اور مستحکم ہو جاتی ہے۔