کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 28
ایم۔اے رحمان منڈی بہاء الدین مذہب اور سائنس موجودہ زمانے کو سائنس کا زمانہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس صدی میں سائنس کے جو حیرت انگیز انکشافات ہوئے ہیں ان سے حضرت انسان کی آنکھیں خیرہ ہو گئی ہیں۔ سائنس کی یہ ترقی ذہین اور زرخیز دماغوں کی مرہونِ منت ہے۔ یہ لوگ علم و دانش میں اپنی مثال آپ تھے لیکن شاید انہیں یہ علم نہیں تھا کہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے کی جانے والی یہ کوششیں ایک دن انسانیت کے لئے وبال جان بھی بن جائیں گی۔ یہ حقیقت کتنی تکلیف دہ ہے کہ سائنس انسانیت کے لئے موجبِ رحمت بننے کے ساتھ ساتھ اس کے لئے ہلاکت کا سامان بھی لے کر آئی ہے۔ نوکلیر Nuclear سائنس کی بے پناہ ترقی انسانیت کے لئے ایک مہلک خطرہ بن چکی ہے ایٹمی توانائی (Atomic Energy) تعمیری کاموں کی بجائے زیادہ تر تخریبی سرگرمیوں میں استعمال ہو رہی ہے۔ سائنسدان تجربہ گاہوں میں بیٹھے جہاں انسانی دکھوں کا مداوا تلاش کر رہے ہیں وہاں وہ اسے اذیت ناک موت سے دو چار کرنے کے سامان بھی تیار کر رہے ہیں۔ سائنسدانوں نے زندگی کو جتنا حسین، سبک اور خوشگوار بنانے کی کوشش کی ہے وہ اتنی ہی پژ مردہ اور مضمحل ہوتی چلی گئی ہے۔ جسم کے خدوخال یقیناً تیکھے اور دلکش نظر آنے لگے ہیں لیکن روح زخموں کی تاب نہ لا کر بلبلا اُٹھی ہے۔ فاصلے سمٹتے اور دل دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ انسانی شخصیت کا شیرازہ بکھرتا چلا جا رہا ہے۔ عقل کی بھول بھلیاں میں بھٹک کر انسان خود سراغِ گم گشتہ بن گیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب ہمارا مادہ پرستانہ نظریہ حیات ہے۔ مادہ پرستی نے انسان کو دولت تو بخش دی لیکن دولت کی یہ فراوانی روح کی آسودگی نہیں دے سکی۔ وہ مادیت کی دلدل میں پھنس کر روح کی آسودگی کو ترس رہا ہے اور اگر روح آسودہ نہ ہو تو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی انسان اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ زندگی کی الجھنوں نے دماغ کو شل کر کے رکھ دیا ہے۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اپنے ذہنوں میں فکری انتشار اور ذہنی پریشانیوں کے اژدہے لئے ہوئے ہیں۔ ان اژدھوں کی پھینکاریں کاروبارِ حیات کو درہم برہم کیے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے انسانی ڈرامے کا ڈراپ سین ہونے والا ہے۔ اگر ہم حقائق کی نظر سے دیکھیں تو ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ انسانی روح جس خلفشار اور کرب میں