کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 27
سمجھ میں آجائے۔ یہ سطور بھی ہم ۱۴ء اگست کے مشاہدات کے بعد ۱۵ء اگست کو تحریر کر رہے ہیں، اور صرف اس خیال سے کہ ۱۴ اگست اتمام پاکستان کا دن ہے، شاید آج کے دن وہ ہم بد نصیبوں کو نظر آجائے۔ لیکن افسوس! اس کو جس پہلو سے بھی آپ دیکھنے کی کوشش کریں گے، آپ کو سخت مایوسی ہو گی، شروع سے لے کر اب تک جتنے اربابِ اقتدار آئے۔ ’’ننگ پاکستان‘‘ ہی آئے، الا ما شاء اللہ! اربابِ اقتدار کے اس معنوی بانجھ پن کا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ معدودے چند بزرگوں کے سوا ان میں ان کے جو ’داشتہ مولانا یا مولوی‘ تھے، وہ اپنے حلقہ میں بھی بدترین خلائق تھے، انہوں نے ضمیر اور قرآن فروشی کے ہٹ کھولے رکھے، محض چند روزہ مفادِ عاجلہ کے لئے سیاست بازوں کی کاسہ لیسی کر کے اپنا پیٹ پالتے اور آخرت سیاہ کرتے رہے۔ اور ہیں: ۱۴ء اگست منایا گیا، کبڈی کھیل کر، تاش کی بازی لا کر، شراب و کباب اڑا کر، اللہ کے قرآن اور رسول کی سنت کا منہ چڑا کر، فلمی شو دیکھ کر، رقص و سرود کی محفلیں جما کر۔ الغرض: اس دن ہر وہ کام کیا جس سے پاکستان کی معنوی عصمت کی نفی ہوتی ہے۔ دعائیں مانگیں غریبوں نے، پرانے وقتوں کے نمازیوں نے، ان کی ناکردیاں دیکھ دیکھ کر دل جلے تو بزرگوں کے، تڑپے تو علمائے حق، روئے تو خدا دوست، آہ و زاری کی تو سچے پاکستان کے دیوانوں نے۔ جمہوریت کشوں نے جمہوریت کے پیام دیئے، روحانیات کے قاتلوں نے، اسلام کے درس دیئے، خدا سے برگشتہ لوگوں نے خوفِ خدا کی رٹ لگائی، ملت فروشوں نے، ملت اسلامیہ کی خدمت کے نعرے بلند کیے، انواع و اقسام کی نعمتوں میں جھولنے والوں نے، غریبوں کی غریبی پر مگرمچھ والے ٹسوے بہائے۔ انا للہ۔ بہرحال دنیا کہتی ہے کہ ۱۴ء اگست یومِ آزادی ہے۔ مگر ہمیں وہ پاکستان کہیں نظر نہیں آتا۔ اس کی معاشیات سوشلزم، ان کی سیاست جمہوریت کش جمہوریت، ان کا ایمان کرسی، ان کا اوڑھنا بچھونا، اغراض سفلی، دھونس، دھاندلی اور مکر و فریب۔ علمائے حق کا ایک گروہ رہ گیا ہے، لیکن افسوس! ان کو بھی شکار کرنے کے لئے انہوں نے نام نہاد مولانا قسم کے لوگووں کو ’سیاسی داشتہ‘ کے طور پر رکھ کر خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔ سخت جان علماء کے سوا دوسروں کا بس خدا ہی حافظ ہے۔ ہم قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ علامہ اقبال اور محمد علی جناح نے جس پاکستان کی امانت ان کے سپرد کی تھی اس کے لٹیروں کے خلاف سینہ سپر ہوں۔ خود اس کی حفاظت کریں اور دوسروں سے بھی کرائیں۔