کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 26
’’مسلمان اس لئے پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مملکت میں وہ اپنے ضابطۂ زندگی، اپنے ثقافتی نشوونما اور روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ (ایضاً ص ۳۳۳،۲) پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کو خطا کرتے ہوئے فرمایا: ’’پاکستان کا مطالبہ اب کروڑوں مسلمانوں کے نزدیک جزو ایمان بن چکا ہے۔ یہ اب ایک نعرہ نہیں رہا۔ مسلمانوں نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ ان کی حفاظت، نجات اور مقدر کا واحد ذریعہ پاکستان ہے۔ وہ پاکستان کہ جب وہ وجود میں آگیا تو ساری دنیا میں یہ آواز اُٹھے گی کہ ہاں! اب ایک ایسی مسلم سٹیٹ کا قیام عمل میں آگیا ہے جو اسلام کے ماضی کی درخشندہ عظمت و شوکت کا احیاء کرے گی۔‘‘ (تقاریر ص ۸۵، ۲) کچھ طلباء نے آپ سے ایک پیغام کے لئے کہا تو فرمایا: ’’تم نے مجھ سے کہا ہے کہ میں تمہیں کوئی پیغام دوں جب کہ ہمارے پاس پہلے ہی ایک عظیم پیغام موجود ہے جو ہماری رہنمائی اور بصیرت افروزی کے لئے کافی ہے، وہ پیغام ہے خدا کی کتابِ عظیم، قرآن کریم (ایضاً ص ۵۱۶،۱) وحدت ملی کی اساس کیا ہونی چاہئے جس سے یہ مستحکم ہو تو فرمایا: ’وہ بندھن، وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر خدا کی کتاب عظیم، قرآن مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگ بڑھتے جائیں گے ہم میں زیادہ سے زیادہ وحدت پیدا ہوتی جائے گی۔ ایک خدا، ایک کتاب، ایک رسول فلہٰذا ایک قوم‘ (ایضا ص ۵۰،۲) ۴۵ء میں ایک پیغام عید کے سلسلے میں کہا کہ: ’اس حقیقت سے سوائے جہلا کے ہر شخص واقف ہے کہ قرآن مسلمانوں کا بنیادی ضابطۂ زندگی ہے جو معاشرت، مذہب، تجارت، عدالت، فوج، دیوانی، فوجداری اور تعزیرات کے ضوابط کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے، مذہبی رسوم ہوں یا روز مرہ کے معمولات، روح کی نجات کا سوال ہو یا بدن کی صفائی کا، اجتماعی حقوق کا سوال ہو یا انفرادی واجبات کا، عام اخلاقیات ہوں یا جرائم دنیاوی، سزا کا سوال ہو یا آخرت کے مواخذہ کا، ان سب کے لئے اس میں قوانین موجود ہیں۔ اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ ہر مسلمان قرآن کریم کا نسخہ اپنے پاس رکھے اور اسی طرح اپنا مذہبی پیشوا آپ بن جائے۔ (طلوع اسلام بحوالہ تقاریر) پاکستان کے سلسلے کی یہ طویل تصریحات صرف اس لئے نقل کی گئی ہیں تاکہ پاکستانیوں کو ’پاکستان‘