کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 25
سنت رسول اللہ پر نہیں ہے وہ شیطانی سیاست ہے اور ہم اس سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔‘‘ اس تقریر کے آخر میں جو بانیٔ پاکستان کی موجودگی میں کی جا رہی تھی، فرمایا: میں آپ کی توجہ اس امر کی جانب خصوصیت کے ساتھ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کا مطالبہ کر کے آپ ایک ایسا ملک چاہتے ہیں جس میں پاک لوگ بستے ہوں، جو خیالات کے لحاظ سے، افکار کے لحاظ سے اور اعمال کے لحاظ سے پاک ہوں، میرے دوست! جسمانی ناپاکی دور ہو سکتی ہے لیکن ذہن و فکر اور قول و عمل کی ناپاکی وہ گندگی ہے جس کو دور کرنے کے لئے خدا نے انبیاء جیسی ہستیاں پیدا کیں، ناپاکیوں میں آلودہ ہو کر، جھوٹ کو اپنا شعار بنا کر، مکر و فریب میں مبتلا رہ کر، ظلم و استبداد کو جاری رکھ کر کیا اپنی پاکبازی اور پاک دامنی کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟ ان گندگیوں سے آلودگی کے باوجود اگر ہمیں ہندوستان کے دونوں شمالی گوشوں میں خوش مختار حکومت بھی حاصل ہو جائے تو وہ پاکستانی کہلانے کی مستحق ہو سکے گی؟‘‘ نواب بہادر یار جنگ بانیٔ پاکستان کے خصوصی احباب اور معاونین اور پاکستان کے عظیم داعیوں میں سے ایک تھے، ہم چاہتے ہیں کہ اس فرصت میں خود جناح علیہ الرحمۃ کے ارشادات کی روشنی میں یہ جائزہ لیں کہ ان کے سامنے جو پاکستان تھا، اس کے خدوخال کیا تھے۔ ۱۳ نومبر ۱۹۳۹ء میں مرحوم نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا: معاشی احیاء ہو یا سیاسی آزادی اسے آخر الامر زندگی کے کسی گہرے مفہوم پر مبنی ہونا چاہئے اور مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ ہمارے نزدیک، زندگی کا وہ گہرا مفہوم اسلام اور روح اسلام ہے۔‘ (تقاریر ص ۱۰۸، ۱) مارچ ۱۹۴۴ء کو فرمایا: ہماری کشتی کا لنگر اور ہماری عمارت کی بنیاد اسلام ہے۔‘‘ (ص ۸۹ /۲) ۱۹۴۵ء میں ایک موقعہ پر کہا کہا: یاد رکھیے! اسلام صرف روحانی احکام و نظریات یا مذہبی رسوم و مراسم کا نام نہیں۔ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو اسلامی معاشرہ کے ہر گوشے کو محیط ہے۔ خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو اور خواہ حیات اجتماعیہ سے۔‘‘ (تقاریر ص ۳۰۱، ۲) ۲۱ نومبر ۴۵ء کو فرنٹیئر مسلم لیگ کانفرنس میں خطاب کتے ہوئے فرمایا کہ: