کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 23
آئندہ بیداری ہو گی تو نہ صرف ہندو راج قائم ہو جائے گا بلکہ مسلمانوں کی شدھی، افغانستان کی فتح وغیرہ باقی ضروری آورش (نصب العین) بھی پورے ہو جائیں گے (روزنامہ ملاپ لاہور جون ۱۹۲۵ء) اس پر مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اور وہ سوچنے لگے کہ اب کیا ہونا چاہئے؟ کچھ لوگوں نے فیصلہ کیا کہ، بس ہمیں الگ وطن مل جائے تاکہ ہندوؤں اور انگریزوں سے خلاصی ہو جائے۔ باقی رہی یہ بات کہ وہ ریاست، اسلامی ریاست بھی ہو؟ اس سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ ان کو اسلام کے نام سے چڑ ہی ہو گئی تھی، اور جب کبھی اسلام کا نام زبان پر آیا تو وہ اس وقت بھی اپنے سے باہر ہوئے ہیں جب کہ لا الٰہ کی بنیاد پر پاکستان بھی معرضِ وجود میں آگیا۔ چنانچہ ایک صاحب لکھتے ہیں کہ: اگر پاکستان کی آئیڈیالوجی سے مراد ایک اسلامی مملکت کا قیام ہے جیسا کہ بعض لوگ نہایت شد و مد اور قسم و یقین کے ساتھ کہتے ہیں تو پھر میں یہ کہوں گا کہ ہمیں کسی اور اسلامی مملکت، مثلاً افغانستان یا ایران کے اندر مدغم ہو جانا چاہئے۔ اس کے مقابل ایک گروہ تھا جس نے اعلان کیا کہ، مسلم الگ ایک قوم ہے، جس کی اپنی روایات، تہذیب اور اصول ہیں جن کا سرچشمہ قرآن ہے، اور یہی اقدار ان کو متحد بھی رکھ سکتی ہیں، علامہ اقبال رحمہ اللہ نے کہا۔ میری آرزو ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ، بلوچستان کو ملا کر ایک واحد ریاست قائم کی جائے ہندوستان کو حکومت خود اختیاری زیر سایہ برطانیہ ملے یا اس سے باہر۔ کچھ بھی ہو، مجھے تو یہ نظر آتا ہے کہ شمال مغربی ہندوستان میں ایک متحدہ اسلامی ریاست کا قیام کم از کم اسی علاقہ کے مسلمانوں کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے (خطبہ الٰہ آباد) ’’اگر آج آپ اپنے تمام تصورات اور تخیلات کو اسلام اور صرف اسلام کے نقطۂ ماسکہ پر مرکوز کر دیں اور زندہ و پائندہ اور قائم و دائم نظریۂ حیات سے جو وہ پیش کرتا ہے، نور بصیرت حاصل کریں تو اس سے آپ اپنی منتشرہ قوتوں کو پھر سے مجتمع اور گم گشتہ مرکزیت کو از سرِ نو حاصل کر لیں گے۔ اور یوں اپنے آپ کو تباہی اور بربادی کے مہیب جہنم سے بچا لیں گے (علامہ اقبال۔ خطبہ الٰہ آباد) نہرو کو اپنے ایک مکتوب کے ذریعے مطلع کیا کہ: ’میں صرف ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہبود کے خیال سے ایک منظم اسلامی مملکت کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہوں۔‘