کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 22
انہی پامال راہوں پر چل رہے ہیں ان کا بھی ان شاء اللہ وہی حشر ہو گا جو ان کا ہوا۔ ہند کے مسلمان جن کے متعلق دشمن یہ کہتے رہے: عزم، تعلیم اور ذہنی صلاحیت کے اعتبار سے مسلمان ہندوؤں سے کہیں زیادہ فائق ہیں اور ہندو ان کے سامنے بالکل طفلِ مکتب معلوم ہوتے ہیں، علاوہ اس کے مسلمانوں میں انتظامی کاموں کی اہلیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔‘‘ (بغاوت ہند از ٹامس ہرنگٹن) ہندو مصنفین پر مجھے بڑا افسوس ہوتا ہے، ان لوگوں سے ہمیں توقع تھی کہ اپنی قوم کے احساسات، توقعات اور معتقدات ہمیں بتائیں گے لیکن وہ اب تک (شاہی) احکام و ہدایات کے مطابق لکھتے ہیں، محرم کو ’محرم شریف‘ اور قرآن پاک کو ’کلام پاک‘ کہتے ہیں اور اپنی تحریروں کو ’بسم اللہ‘ سے شروع کرتے ہیں۔‘ (تاریخ ہندوستان از سر ہنری ایلٹ) اب وہی دشمنانِ دین لکھنے لگے کہ: ’ہندوستان کے مسلمان ذلیل ترین امت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے ہیں اور قرآن کے مسئلوں اور ہندوستان کی بت پرستی سے مل ملا کر ان کا مذہب ایک عجیب مجموعہ بن گیا ہے۔‘ (روشن مستقبل بحوالہ ایک انگریز مورخ) یہ وہ حالات تھے، جن سے مصلحین امت متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے اور نہ رہے، انہوں نے پھر سے ملت اسلامیہ کے احیاء کی کوشش کی، اس سلسلے میں ان کو مختلف مصائب سے بھی گزرنا پڑا اور پوری استقامت سے گزرے۔ اس دوڑ میں ’جماعتِ مجاہدین‘ سید اسماعیل شہید اور سید احمد بریلوی رحمہما اللہ بھی میدان میں اتر آئے، مگر تقدیر کے سامنے تدبیر نہ چل سکی اور اپنی قوم کی نادانیوں کی وجہ سے ساحل پر پہنچتے پہنچتے یہ ناؤ پھر گردانِ بلا کا شکار ہو گئی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اس کے بعد مسئلہ یہ رہ گیا کہ کسی طرح پہلے انگریزوں سے گلو خلاصی کرائی جائے، جب یہ تحریک اوج پر پہنچی تو ہندو بولا۔ ’’اس نے پرانے ڈاکٹروں کی تشخیص کو غلط قرار دے کر یہ بتلایا کہ ہماری سیاسی غلامی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے ہم اپنی اخلاقی، روحانی اور معاشرتی زندگی سے جدا کر سکیں، اس لئے ہماری سیاسی جدوجہد کو معاشرتی، اخلاقی اور روحانی جدوجہد کے ساتھ وابستہ کرنے کی ضرورت ہے (گاندھی) ایک اور صاحب بولے: پس اگر ہندوستان کو کبھی آزادی ملے گی تو یہاں ہندو راج ہو گا۔.... اگر ہندو قوم میں