کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 19
مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُط كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا قَالُوْا ھٰذَا الَّذِيْ رُزِقْنَا۱۶؎ مِنْ قَبْلُ وَاُتُوْا بِه مُتَشَابِھَا
(بہشت کے) باغ ہیں جن کے تلے پڑی نہریں بہہ رہی ہیں۔ جب ان کو ان میں کا کوئی میوہ کھانے کو دیا جائے گا تو کہیں گے، یہ تو ہم کو پہلے بھی (کھانے کےلئے) مل چکا ہے اور (یہ اس لئے کہیں گے کہ) ان کو ایک
_____________________________________________________
ہو گا، اگر ثواب تو ہو مگر خالص نہ ہو تو بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ ایک خالص بھی ہو اور صواب بھی۔ خالص یہ ہے کہ محض اللہ کی رضا کے لئے ہو اور صواب (درست) یہ ہے کہ، سنت پر مبنی اور اس کے موافق ہو۔
یہاں بھی عمل صالح سے یہی مراد ہے۔ ایمان لانے کے بعد، یہی مرحلہ سب سے مشکل ترین مرحلہ ہے، زندگی کے تمام شئون اور کیفیات میں اللہ کی رضا اور خوشنودی ملحوظ رہے اور پھر ان کو کتاب و سنت کے مطابق کرنے کی پابندی کی جائے تو ’پیامِ بشارت‘ کے وہ صحیح مستحق اور اہل ثابت ہوں گے۔
لَھُمْ جَنّٰتٍ (ان کے لئے بہشت ہیں) یہاں سے پیامِ بشارت کے اجمال کی تفصیل شروع کی جا رہی ہے۔ وہ باغات بہشت کی خوش خبری ہے کہ وہ ان کو نصیب ہوں گے۔
بہشت اور اس کے لوازمات ایسے خوش آئند حقائق ہیں جو ہمارے وہم و گمان سے بالا تر ہیں۔ لیکن ہمارے سمجھانے کے لئے انہیں ہمیں ہماری معروف اور دلچسپ زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ باغات، ان میں نہروں کا جال، پھر انواع و اقسام کے پھلوں کی ارزانی اور پاکیزہ رفیقۂ حیات کی معیت کے وعدے کچھ ایسے معروف اور دل آویز تصورات ہیں جو تھکے ماندے انسانوں کو گرم اور تازہ دم رکھنے کے لئے ہر آن نیا حوصلہ بخشتے ہیں۔
اٰمَنُوْا اور عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کو مقدم بیان کیا گیا ہے جس سے غرض یہ ہے کہ: ان کے ایمان اور عمل صالح کا محرک یہ بظاہر حیوانی تقاضائے نہیں ہیں، بلکہ صرف رضائے الٰہی اور امتثال احکام خداوندی ہے۔ وہ صرف اس لئ نیک عملی کی راہ اختیار کرتے ہیں کہ اللہ میاں کا یہی حکم ہے اور اسی میں اس کی رضا ہے۔ بہرحال اگر خوش ہو کر اللہ تعالیٰ ان پر اپنے ان انعام و اکرام کی بارش بھی کر دے تو اس کے بندے اس کے بھی محتاج تو ہیں ہی۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ: بندۂ مومن اس امر سے کہیں