کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 18
بَشِّرِ۱۴؎ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ ۱۵؎جَنّٰتٍ تَجْرِيْ
(اے پیغمبر) جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل بھی کیے، ان کو خوشخبری سنا دو کہ ان کے لئے
______________________________________________
’’تم اور وہ بت، خدا کے سوا جن کو تم پوجتے تھے، سب دوزخ کا ایندھن ہیں۔‘‘
پتھروں کے ذریعے آگ تیز ہو جاتی ہے، اس کے علاوہ جو لوگ ان کوپوجتے تھے، اب ان کا یہ حشر دیکھ کر کڑھیں گے اور حسرت کی آگ میں اور جلیں گے۔
مرزائیوں نے ’الحجارۃ‘ سے وہ پتھر دل مراد لئے ہیں جو محبتِ الٰہی سے خالی ہیں، مگر ان کے دعوائے نبوت کی طرح، ان کی یہ دریافت بھی سو فی صد غلط ہے، کیونکہ جو الناس یا الانس دوزخ میں جائیں گے یہ وہی تو ہوں گے جن کو خدا سے نفس و طاغوت زیادہ عزیز ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد الگ اس کے ذکر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
۱۳؎ اُعِدَّتْ (تیار کی گئی ہے) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ: دوزخ کا وجود اب بھی ہے۔ یہ نہیں کہ، کل ضرورت پڑنے پر پیدا کر لی جائے گی۔ لِلْکٰفِرِیْنَ (کافروں کے لئے) سے بھی معلوم ہوا دوزخ کی تخلیق کا اصل محرک اور بنیادی داعیہ کفاروں کا وجود ہے۔ گنہگار مسلمانوں کو جو سزا ملے گی اس کی حیثیت تادیب کی ہو گی۔ بالکل یوں جیسے راہ چلتے۔
۱۴؎ بَشِّرْ (خوش خبری دیجئے!) یہ پیامِ بشارت، ان خوش نصیب حضرات کے لئے ہے جو ایمان اور عمل صالح سے آراستہ ہیں۔ ایمان ’مَا جَاءَ بِهِ الرَّسُوْل‘ (جو خدا کے رسول لائے) کو برحق یقین کرنے کا نام ایمان ہے۔ اس کے مطابق زندگی گزارنے کا نام عمل صالح ہے، یا یوں خیال کیجئے کہ یقین کی یہ کیفیت جب تک دل میں رہتی ہے، ایمان کہلاتی ہے، جب پوری زندگی پر وہ چھا جاتی ہے تو اس کو اسلام کہتے ہیںِ اسلام کے ان بو قلموں مظاہر کا نام ’عمل صالح‘ ہے۔ حضرت فضیل بن عیاض لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلا کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اخلصه واصوبه وقال ان العمل اذا كان خالصا ولم يكن صوابا لم يقبل واذا كان صوابا ولم يكن خالصا يقبل حتي يكون خالصاً وصوابا، قال والخالص اذا كان للّٰه عزوجل والصواب اذا كان علي السنة (شرح اربعين لابن رجب ص ۸)
یعنی عمل صالح اور درست رکھ، فرمایا عمل خالص تو ہو لیکن صواب (درست) نہ ہو، قبول نہیں