کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 17
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا۱۱؎ فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِيْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ۱۲؎ اُعِدَّتْ۱۳؎ لِلْكٰفِرِيْنَ٭وَ
پس اگر (اتنی بات بھی) نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو (دوزخ کی) آگ سے ڈرو جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے (اور وہ) منکروں کے لئے تیار ہے۔ اور
____________________________________________
میں بہت اونچا مقام رکھتے ہیں، اس لئے آپ ساری دنیا سے زیادہ خدا کے عبد اور غلام ہیں۔
۱۰؎ مِنْ مِّثْلِه (اس جیسی) حسن انشاء، فصاحت و بلاغت، مطالب کی جامعیت اور احکام و قصص کی معنی خیز حقانیت اور افادیت اور ندرت میں قرآن حکیم اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن اس کے باوجود منکرین رسالت کو اس امر پر اصرار تھا کہ یہ کلامِ خدا نہیں بلکہ محمد بن عبد اللہ کی تصنیف ہے۔ قرآن حکیم نے اس پر ان کو چیلنج کیا کہ اگر یہ کلامِ خدا نہیں ہے تو ویسا کلام بنا کر پیش کرنا آپ کے لئے بھی ممکن ہو گا۔ سارا قرآن نہ سہی، کوئی سی چھوٹی موٹی سورت جیسی ایک سورت ہی بنا کر لے آئیے! خود نہیں بنا سکتے تو اپنے دوسرے معاونین سے مل کر ہی ایک سورت بنا ڈالیے (وَادْعُوْا شُھَدَآءَکُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ) بلکہ سارے جہان کے لوگوں کو اپنی مدد کو بلا لاؤ، انسان کیا جنوں کو بھی اپنے ساتھ ملا کر پیش کر سکتے ہو تو ضرور کرو!
﴿قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُراٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِه وَلَوْ كَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِيْرًا ﴾
۱۱؎ وَلَنْ تَفْعَلُوْا (اور تم ہرگز نہیں کر سکو گے) اس کے دو معنی کیے جاتے ہیں! ایک یہ کہ ایسا تم ہرگز نہیں کر سکو گے، دوسرے یہ کہ، تم ایسا ہرگز کرو گے نہیں۔ لیکن صحیح پہلے معنی ہیں، کیونکہ کفار کی اس سلسلے کی کوششیں معروف ہیں۔
۱۲؎ اَلْحِجَارَةُ (پتھر) دوزخ کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ ایندھن سے آگ بھڑکتی ہے، سو اس میں جتنے نافرمان انسان اور پتھر پڑیں گے اتنی ہی آگ تیز ہوتی جائے گی۔ ان پتھروں سے مراد وہ اصنام ہیں جو گھڑ کر پتھروں سے بناتے اور ان کو پوجتے تھے۔
﴿اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَھَنَّمَ ﴾(پ۱۷۔ انبیاء۔ رکوع۷)