کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 16
مِّمَّا نَزَّلْنَا۸؎ عَلٰي عَبْدِنَا ۹؎فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِه۱۰؎ وَادْعُوْا شُھَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَO
اتارا ہے اگر تم کو اس میں شک ہو (اور سمجھتے ہو کہ یہ کتاب خدا کی نہیں بلکہ آدمی کی بنائی ہوئی ہے) اور اپنے اس (دعوے میں) سچے ہو تو اس جیسی ایک سورہ (تم بھی بنا) لاؤ اور اللہ کے سوا اپنے حماتیوں کو بھی بلا لاؤ
________________________________________________
کو نہیں سمجھے کہ ناجائز طریقہ سے جو کام کیا جائے گا، ظاہر ہے وہ ضرور کسی اور کا کچھ بگاڑ کر ہی کیا جائے گا۔
جو کام جائز طریقے سے بھی کیے جائیں چاہے کہ وہ بھی مثبت طور پر اس بنیاد پر کیے جائیں کہ خدا نے اس کی اجازت دی ہے۔ اس انتساب کی ضرورت اس لئے ہے کہ نسبت، توجہ اور تعلق خاطر کی استواری کے لئے ایک عظیم نفسیاتی رابطہ ہے، اس نسبت میں کمی واقع ہو یا وہ منقسم ہو جائے تو یہ اکسیر بے کار ہو جاتی ہے، خاص کر توحید کے شایان نہیں رہتی۔ اس لئے ہمارے نزدیک جائز امور میں بھی، وحی الٰہی کے امتثال کا احساس اور شعور زندہ اور تابندہ رہنا چاہئے، ورنہ ایمانی اور اخروی نقطۂ نظر سے اس کی حیثیت فعلِ عبث سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہو گی۔
۸؎ نَزَّلْنَا (ہم نے اتار) اتارنا دو طرح سے ہوتا ہے، بتدریج تھوڑا تھوڑا اور یکبارگی اور اکٹھا اتارنا۔ پہلی صورت تنزیل کی ہے، دوسری صورتِ انزال کی ہے، جس میں دونوں صورتیں آجاتی ہیں، قرآن حکیم کے نزول کی صورت پہلی ہے اور یہ عین حکمتِ الٰہی کے مطابق ہے تاکہ وحی الٰہی اور انسانی طبائع میں ساز گاری اور قدرتی ہم آہنگی پیدا ہو، اور انسانی معاشرہ بہ آسانی اس کا متحمل ہو سکے۔
۹؎ عَبْدِنَا (ہمارا بندہ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ اضافت تشریفی اور تکریمی ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام تر سرفرازیوں، عظمتوں اور رفعتوں کے باوجود خدا کے ہاں سے آپ کو جو سب سے بڑا اعزاز اور عظیم لقب عطا ہوا وہ ’’عبدہ‘‘ (خدا کا بندہ) ہے تاکہ دنیا آپ کی رفعت شان کو دیکھ کر آپ کو کچھ اور نہ بنا ڈالے۔ کلمۂ شہادت، جو اولین شرطِ ایما ہے، اس میں ’عبدہ ورسولہ‘ اس کا جزو ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ، اللہ کا بندہ قرب و اختصاص میں جتنا آگے بڑھتا ہے ’عبدہ‘ کا رنگ پھیکا پڑنے کی بجائے اور گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔ کیونکہ جو شخص بندگی اور عبدیت کے باب میں جتنا راسخ ہوتا ہے، اتنا وہ خدا کا بڑا عبد اور غلام کہلاتا ہے۔ چونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خدا کی بندگی اور عبدیت