کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 15
خدا کو ناراض کر کے اپنے جیسے انسانوں کی اطاعت کرنی ’انداد‘ کہلاتا ہے۔
حضرت عکرمہ (ف ۱۰۵ھ) نے اس کو ایک مثال سے سمجھایا ہے، وہ فرماتے ہیں: جیسا کہ آپ کہیں کہ: اگر گھر میں کتا نہ ہوتا تو چور گھر میں گھس آتا۔
اندادًا ای تقولوا لو لا کلبنا لدخل اللص الداد، لو لا کلبنا صاح فی الدار ونحوذلک (ابن جریر)
دیوتاؤں اور بزرگوں کو خدائی اختیارات کا ملک تصور کرنا، خدا کو ناراض کر کے بعض شخصیتوں کی دلجوئی کرنا، یا فتح و شکست، کامیابی اور ناکامی کے لئے اسباب پر نگاہ رکھنا اور ان کو موثر خیال کرنا، انداد کہلاتا ہے۔
دورِ حاضر میں بھی یہ سبھی قسم کی قباحتیں پائی جاتی ہیں، دیوتاؤں، بتوں، مزارات، بزرگوں سے جس طرح خلق خدا آسیں لگا کر رہتی ہے، وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے، اس سے بھی بڑھ کر یہ فتنے عام ہیں۔
الف۔ جن امور میں خدا کی نافرمانی ہوتی ہے ان میں بھی لوگوں کی اطاعت کی جاتی ہے اور ان کو خوش رکھا جاتا ہے۔
ب۔ اسباب اور وسائل پر نگاہ رکھی جاتی ہے اور اس سلسلے کی خدائی تلقینات کی پرواہ نہیں کی جاتی۔
یہ وہ انداد ہیں، جن کو ہم خدا کے مد مقابل اڈے کہہ سکتے ہیں۔ اور جو بد نصیب لوگ ان فتنوں کے نرغوں میں گھر گئے ہیں، ان کی عاقبت سخت خطرے میں ہے بلکہ دنیا بھی۔
۷؎ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (حالانکہ تم جانتے بوجھتے ہو) یہ بات کہ سچا خدا ایک ہے، وہی خالق، وہی رب اور صرف وہی رازق ہے، سب کو معلوم ہے، اس لئے مناسب بھی یہی ہے کہ اب اطاعت اور عبادت بھی تنہا اسی ذاتِ واحد ی کی بجائے۔ اس میں شکر گزاری بھی ہے اور عقل و ہوش کی بات بھی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر و شرک کے جو کام لوگ کر رہے ہیں، وہ ان کی بے خبری کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ جلد بازی کا ہے۔ چاہتے ہیں کہ، خدا نے تو دیر کر دی ہے، اس لئے اب یوں کر کے دیکھ لیں، شاید جلدی ہو جائے، یا جو کام وہ نہیں چاہتا، وہ دوسروں کی معرفت اس سے منوا لیا جائے کچھ لوگ اس بھول میں بھی رہتے ہیں کہ جو کام جائز یا ناجائز طریقے سے ہو سکتا ہے اس کے لئے خدا کے گرد چکر کاٹنے کی کیا ضرورت، اور اس کے احکام کے انتظار کا کیا فائدہ؟ کیونکہ غرض کام سے ہے نام سے نہیں۔ اگر اس طرح ہمارا کام ہو سکتا ہے تو خدا کا کیا بگڑتا ہے۔ لیکن وہ اس بات