کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 14
اَنْدَادً وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۷؎٭ وَاِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ
نہ بناؤ اور تم جانتے (بوجھتے) ہو اور وہ جو ہم نے اپنے بندے پر
______________________________________________
مینہ برسا کر پھل پھول اگائے تاکہ انسان ان سے متمتع ہو۔
لَکُمْ (تمہارے لئے) کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ، تم ان چیزوں کے لئے نہیں بنائے گئے ہو بلکہ یہ چیزیں تمہاری ضیافت طبع اور بقا کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔
۶؎ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا (سو تم اللہ کے ہم سر نہ ٹھہراؤ) یعنی ایسا نہ ہو کہ کھاؤ کسی ذاتِ برحق کا اور گاؤ کسی اور کا۔ شیخ سعدی رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا ہے۔
ابر و باد و مہ و خورشید و فلک درکار اند
تاتو نانے بکف آری و بغفلت نخوری
ہمہ از بہر تو سر گشتۂ وفرمانبردار
شرط انصاف نہ باشد کہ تو فرماں نہ بری
اَنْدَاد، نِدٌّ کی جمع ہے۔ نِدٌّ کے معنی نظیر، مثل اور عدل کے ہیں، امام ابن الاثیر (ف . ھ) فرماتے ہیں:
ھو مثل الشیٔ الذی یضادہ فی امورہ دینادُّۃ ای يخالفه (تاج العروس)
نِدشے کے اس مثیل کو کہتے ہیں جو اس کے تمام امور میں مخالف ہو یعنی اسی کا حریف و مد مقابل ہو۔
امام ابن جریر (ف ۳۱۰ ھ) فرماتے ہیں: اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو کسی شے کی نظیر اور مشابہ ہو:
کل شیٔ کان نظیر الشیء وشبیھا (جامع البیان عن تاویل آی القراٰن)
حضرت مجاہد (ف ۱۲۳ھ) حضرت قتادہ (ف ۱۱۷ھ) نے اس کے معنی: عُدَلاء (مثیل، نظیر، مانند، ہمسر، ہم مرتبہ) کیے ہیں۔ (ابن جریر)
یہ مماثلت جوہر اور اصل میں بھی ہوتی ہے اور صفات میں بھی، خدا جیسا خدا بنا لیا جائے یا کسی کو خدائی اختیارات کا مالک تصور کر لیا جائے۔ سب کو نِد کہتے ہیں۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ (ف ۳۴ھ) اور دوسرے بہت سے صحابہ نے انداد کے معنی یہ کیے ہیں۔
اکفاء من الرجال تطیعوا نھم فی معصية اللّٰه (ابن جرير)