کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 13
فَاَخْرَجَ بِه مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقً۵؎ا لَّكُمْ فَلَا تَجْعَلُوْا۶؎ لِلهِ کھانے کے پھل پیدا کئے پس کسی کو اللہ کا ہم پلّہ _____________________________________________ تک پہنچایا۔ صرف تمہیں نہیں، تم سے پہلے جو تھے ان کو بھی اسی ذات خالق نے پیدا کیا۔ (وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ) عملِ تخلیق صرف ذاتِ واحد کے دست قدرت کا کرشمہ ہے، اس لئے آپ کے قلب و نگاہ کا مرجع بھی صرف اور صرف اسی ذاتِ واحد کو ہونا چاہئے ورنہ اتمامِ توحید مشکل ہے۔ ۴؎ تَتَّقُوْنَ (پرہیز گار بن جاؤ گے) راہِ توحید اختیار کیے بغیر، خدا کی سچی غلامی کی توفیق حاصل نہیں ہوتی اور نہ تقویٰ شعار انسان بن سکتا ہے۔ انسانی فکر و نگاہ منقسم ہو تو ظاہر ہے خدا کی سچی غلامی کا حق ادا نہیں ہو گا۔ اسی طرح وہ ادھر ادھر سے بچ بچا کر سفر حیات کا بے داغ اتمام بھی نہیں کر سکے ا۔ اس لئے ارشاد ہوا کہ اسی ذات کی عبادت کرو جو تمہارا اور تم سے پہلوں کا رب اور خالق ہے، تم متقی بن جاؤ گے، یعنی تمہیں ماسوی اللہ سے بچ بچ کر چلنے کی توفیق اسی وقت ہی نصیب ہو سکتی ہے جب دائیں بائیں اور آگے پیچھے خدا کے سوا آپ کی آنکھوں میں اور کوئی شے اور ذات مسائی ہوئی نہ ہو۔ اگر کچھ اور بھی سمایا ہو گا، تو ادھر ادھر سے رخ موڑ کر اور یکسو ہو کر صرف اسی کے لئے اور اس کی طرف سفر جاری رکھنا محال ہو جائے گا۔ ۵؎ رِزْقًا لَّکُمْ (تمہارے لئے روزی) یہاں پر ان نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو انسانوں کی بقا اور راحت کے لئے ضروری ہیں۔ زمین کو فرش سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ یہ یوں ابھری ہوئی نہیں ہے، کہ اس پر قرار ممکن نہ رہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ زمین گول نہیں ہے، چپٹی ہے۔ دوسرا یہ کہ فرش (بچھونا) آرام گاہ شے کا نام ہے، کیونکہ یہ انسانی بود و باش کے لئے ایک ساز گار قرار گاہ ہے۔ دوسرے ان سیاروں کی طرح نہیں ہے جن میں زندگی محال ہے۔ آسمان کو عمارت اور چھت سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ یہ ایک چھت والے مکان کی طرح اوپر سے ڈھانپ رہا ہے اور انہی خواص کے ساتھ جو ایک مکان کے ہو سکتے ہیں۔ زمین و آسمان کے بیان کرنے سے غرض ان کی ہیئت بیان کرنا نہیں ہے بلکہ ان سے انسان کا جو تعلق ہے اس کو بیان کرنا مقصود ہے۔