کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 12
وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۴؎٭ اَلَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً پہلے ہو گزرے ہیں، پیدا کیا، عجب نہیں تم (آخر کار) پرہیز گار (بھی) بن جاؤ۔ جس نے تمہارے لئے زمین کا فرش بنایا اور آسمان کی چھت اور آسمان سے پانی برسا کر تمہارے ____________________________________________________ کو چھوڑ تنہا اس کی ’طاعت اور عبادت‘ کرو۔ وحدوہ امی افردوا الطاعة والعبادة لربكم دون سائر خلقه (ابن جرير) عبادت کے مفہوم دو ہیں۔ ایک یہ کہ، نمازیں پڑھی جائیں، ذکر کیا جائے، حج، زکوٰۃ اور روزے رکھے جائیں، دوسرا یہ کہ پوری زندگی خدا کی مرضی کے مطابق گزاری جائے۔ نظریہ توحید کے شایانِ شان یہی مفہوم ہے۔ اگر زندگی کے بعض پہلو نفس و طاغوت کے حوالے رہے تو ظاہر ہے یہ زندگی دوئی کی راہ پر پڑ گئی، صرف خدائے واحد کے لئے یکسو نہ رہی۔ طاعت اور عبادت میں فرق طاعت جائز امور میں غیر خدا کی بھی ہو سکتی ہے، لیکن عبادت غیر خدا کی نہیں ہو سکتی اور اسی میں بندگانہ خضوع شرط ہے، طاعت میں یہ ممنوع ہے۔ ورنہ یہ طاعت عبادت بن جاتی ہے۔ ان العبادة غاية الخضوع ولا تكون الا للّٰه والطاعة الفعل الواقع علي حسب الارادة ويكون للخالق والمخلوق (كتاب الفراق) ۳؎ اَلَّذِیْ خَلَقُکْم (جس نے تمہیں پیدا کیا) ایک خلق یہ ہے کہ نیست سے ہست کیا جائے، دوسرا یہ کہ ہست سے ہست کیا جائے۔ یعنی ایک موجود شے سے دوسری شے پیدا کی جائے۔ یہاں دونوں معنی مراد ہیں، پہلے انسان کا کچھ بھی مذکور نہیں تھا، پھر اسے بنا ڈالا، مٹی سے پیدا کیا، مٹی کہاں سے بنی۔ اس سے اگلی شے کہاں سے وجود میں آئی۔ یہاں تک کہ یہ سلسلہ ایک ایسی ’تجرید‘ پر جا ختم ہوتا ہے جہاں خدا کے سوا باقی ہر ‘ہست‘ معدوم ہوتا ہے۔ اس سٹیج پر جو عمل تخلیق ہوتا ہے وہ بغیر مادہ اور مثال سابق کے ہوتا ہے جسے عربی میں ’ابداع‘ بھی کہتے ہیں۔ یعنی اس ذات کی عبادت اور سچی غلامی اختیار کیجئے، جس نے تمہیں ہست کر کے بتدریج کمال