کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 11
التفسیر والتعبیر
مولانا عزیز زبیدی واربرٹن
التفسیر والتعبیر
(قسط ۸)
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ۱؎ اعْبُدُوْا۲؎ رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ۳؎
لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور ان لوگوں کو جو تم سے
___________________________________________________
۱؎ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ (اے لوگو!) بلا استثناء یہ خطاب سب لوگوں سے ہے وہ مومن ہوں یا کافر، گورے ہوں یا کالے، مشرقی ہوں یا مغربی، جنوب میں رہتے ہوں یا شامل میں۔ غرض یہ کہ: کوئی ہو کہیں کا رہنے والا ہو اور کیسا ہو، قرآن اسے پکارے جا رہا ہے۔
پہلے خالص مومن کا ذکر تھا، پھر پکے منکرینِ حق (کافروں کا) اس کے بعدبزدل منافقوں اور سیاسی پینترے بازوں کا۔ اب ان سب کا ہے، تاکہ قرآن و حکیم کے تیز و تند تبصرہ سے کافر اور منافق یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ: اب خدا کا ہم سے کوئی تعلق نہیں رہا اور وہ ہمیشہ کے لئے ہم سے کٹ گیا ہے، اب (یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ!) کہہ کر ان کی اس بد گمانی اور مایوسی کو دور کیا ہے کہ، تبصرہ سے مقصود ’’حالِ واقعی‘‘ کا اظہار تھا، جہاں تک تعلق کی بات ہے؟ سو اس کے لئے خدا کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے، بلکہ کچھ بھی ہو، وہ اب بھی آپ کے انتظار میں ہے۔
۲؎ اُعْبُدُوْا (عبادت کرو) پُر سوز اور پُر خلوص مگر غلامانہ عاجزی کے ساتھ خدا کے حضور، بے ریا وفا اور طاعت کا نذرانہ پیش کرنے کو ’عبادت‘ کہتے ہیں۔
معنی العبادۃ، الخضوع للّٰه بالطاعة والتذلل له بالاستكانة (تفسير ابن جرير طبري۔ آيت مذكوره)
اس میں شرط یہ ہے کہ یہ رنگ صرف خدا کے لئے ہو اور بلا شرکت غیرے ہو، اس لئے اُعْبُدُوْا کے معنی وَحِّدُوْہُ (اس کو وحدہ لا شریک لہ یقین کرو) بھی کئے گئے ہیں۔ یعنی سارے سنسار اور جگ