کتاب: محدث شمارہ 36 - صفحہ 10
حضری کو مسافروں کو خوش آمدید کہنا چاہئے، لیکن یہ چیزیں شرعی اصطلاح میں فرض کفایہ کی شکلیں ہیں نہ کہ قانونِ ضرورت کے تحت مصارف کی تعیین نو یا تعمیر نو کی کھلی چٹھی مہیا کریں۔
زکوٰۃ سے غریب کی مد ہو جاتی ہے، رفاہِ عامہ کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں اور دینے والے کا تزکیہ ہوتا ہے، دنیا میں بسر کرنا ہے لیکن وہ مطلوب و مقصود مومن نہیں ہے۔ یہ دراصل جزوی خلا پُر کرنے کے کام آتی ہے۔ وہ سارے خلا جو غیر محتاط معاشرہ نے پیدا کر ڈالے ہیں، زکوٰۃ ان کی ذمہ دار نہیں ہے۔ اگر نظامِ معاشرت اسلامی ہو تو آپ کو زکوٰۃ لینے والوں کی تلاش ہی کرنا پڑے۔ ہم اپنی حماقتوں اور اسلام دشمن اعمال کی وجہ سے تباہ ہو رہے ہیں، آپ سمجھتے ہیں کہ ان کو بھی زکوٰۃ ہی سہارا دے! کیوں! مقصد یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ میں شرعی قوانین کفالت اور مصارف ہماری تمام ممکنہ ضرورتوں کے ضامن ہیں کسی اور قانون ضرورت کی مطلقاً حاجت نہیں۔
بہحال ہمارے نزدیک قرآن و حدیث کے متعین احکام میں رد و بدل کرنے کی ریت بہت برا اور حد درجہ فتنہ پرور رنگ لائے گی۔ بہتر ہے یہ دروازہ کھولنے کی کوشش نہ کریں۔
ریڈیو پاکستان کی بد دیانتی
امریکہ سے واپسی پر ایک عظیم اجتماع سے تقریر کرتے ہوئے مولانا مودودی نے مرزائیوں کے سوشل بائیکاٹ کو اسلام کے عین مطابق بتایا جسے ہزاروں لوگوں نے سنا مگر داد دیجئے ریڈیو پاکستان کو کہ اس نے اس کے برعکس مولانا موصوف سے یہ بیان نشر کیا کہ وہ قادیانیوں کے سوشل بائیکاٹ کو جائز نہیں تصور کرتے۔
ریڈیو پوری قوم کی امانت ہوتے ہیں۔ وہ کسی خاص طبقہ کی جاگیر نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کا عملہ اس امر کا مجاز ہوتا ہے کہ اس کو کسی طبقہ کی دلجوئی کے لئے غلط استعمال کرے۔ کیونکہ وہ کسی خاص پارٹی کے سرکاری ملازم نہیں ہوتے بلکہ پوری قوم کے معزز کارکن اور ملازم ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کو اپنے پیشہ کی تقدیس اور ذمہ داریوں کا خود احترام کرنا چاہئے۔
مولانا موصوف سے سینکڑوں اختلاف ہو سکتے ہیں لیکن اس امر کے ممنوع ہونے میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے کہ ان کے بیان کو کوئی توڑ موڑ کر پیش کرنے کی کوشش کرے اگر یہ سلسلہ جاری رہا جیسا کہ یہاں پر مدتوں سے جاری ہے تو بیرونی دنیا پاکستانی ریڈیو پر قطعاً کوئی بھروسہ نہیں کرے گی۔ اور یہ بات ملک و ملت کے لئے نیک نامی کا موجب نہیں بن سکتی۔