کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 98
کیلئے بھی ہر وقت کھلی ہے۔ وہ جب چاہے اپنے مذہب کے مطابق اسمیں عبادت کرسکتے ہیں۔"[1] اس سلسلے میں انہوں نے ۹ھ میں نجران کے عیسائی وفد کی آمد کے موقع پر اُن کو مسجدِ نبوی میں ٹہرانے اور اس دوران پیش آمدہ واقعہ سے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کی مساجد میں اہل کتاب یعنی یہودیوں اور نصارانیوں کو اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی ہر وقت کھلی اجازت ہے۔ لہٰذا اس مقصد کے لئے طاہر القادری صاحب نے عیسائیوں کو باقاعدہ دعوت دی کہ وہ ہماری مساجد میں آکر اپنے طریقے کے مطابق عبادت کیا کریں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام چونکہ مسجدِ نبوی میں ہی زیادہ ہوا کرتا تھا لہٰذا جو بھی وفود آتے، وہ آپ سے مسجد ِنبوی میں آپ سے ملاقات کرتے۔ چنانچہ جب اہل نجران کا وفد آیا تو آپ سے تفصیلاً بات کرنے کے لئے مسجدِ نبوی میں ٹھہرا۔ اس دوران ایک دفعہ آپ نماز سے فارغ ہوکر واپس آئے تو وہ اپنے مذہبی طریقے کے مطابق نماز پڑھنے لگے جس پر صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کو منع کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عارضی طور پر اُس وقت ان سے درگزر کرنے کا حکم دیا۔لیکن اس سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدِ نبوی میں ان کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی خصوصاً تلقین کی ہو یا ان کو اس بات کی باقاعدہ طور پردعوت دی ہو اور نہ ہی ہمارے اسلاف نے اس واقعہ سے مسلمانوں کی مساجدمیں اہل کتاب کو باقاعدہ طور پر عبادت کی دعوت دینے کا حکم اخذ کیا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بعد میں جب۹ھ میں قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی : ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا المُشرِ‌كونَ نَجَسٌ فَلا يَقرَ‌بُوا المَسجِدَ الحَر‌امَ بَعدَ عامِهِم هـٰذا...28 ﴾[2] "اے ایمان والو! بے شک مشرک بالکل ناپاک ہیں۔ وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں۔" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم جاری فرمایا: عَنْ جَابِرٍعَنْ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: ((لَا یَدْخُلُ مَسْجِدَنَا هٰذَا مُشْرِكٌ بَعْدَ عَامِنَا هَذَا غَیْرَ أَ هْلِ الْکِتَابِ وَخَدَمِهِمْ)) [3] "حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک ہماری مسجدوں میں داخل نہ ہو سوائے اہل کتاب اور ان کے خادموں کے۔" محدثین کے نزدیک اس حدیث میں اہل کتاب سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جوکہ ذمّی ہوں جیسا اس بات کی وضاحت مسند احمد میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں ملتی ہے:
[1] روزنامہ جناح،3جنوری2006ء [2] سورۃ التوبۃ:۲۸ [3] مسند احمد:۱۴۱۲۲