کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 96
انعقاد کا مقصد مسلمانوں میں اس تہوار کو عام کرنا یا نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرنا ہے۔"[1] یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کرسمس ڈے مسلمانوں کا تہوار نہیں اور مسلمانوں کی اس میں شرکت بھی جائز نہیں تو پھر اس تہوار کا اپنے ادارے کے تحت انعقاد کرنا کیسے جائز ہوگیا؟ اور جب عام مسلمانوں کی اس میں شرکت جائز نہیں تو طاہر القادری صاحب کو وہ استثنیٰ کس وحی کے تحت مل گیا کہ اُن کے لئے اس میں شرکت جائز ہوگئی۔ باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ طاہر القادری نے اپنے حلقہ انتخاب میں الیکشن جیتنے کے لئے عیسائی برادری کے ساتھ اس قدر خیر سگالی کا مظاہرہ کیا کیونکہ اس حلقہ میں عیسائی لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ جہاں تک سوال ہے 'جذبۂ خیر سگالی' کا تو کیا ایسا کوئی ثبوت ہمیں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین و تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے دور میں ملتا ہے کہ اُنہوں نے 'جذبۂ خیر سگالی' کے تحت کفار کے تہواروں میں شرکت کی ہو بلکہ اس کا اپنی طرف سے انعقاد بھی کیا ہو۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو کفار کے اس قسم کے تہواروں سے دور رہنے کا صریح حکم دیا گیا ہے اور ان میں کسی بھی طرح کی شرکت کو کفر و شرک سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سلف و خلف کے فقہا اورعلماے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی قوم کے مذہبی تہواروں کی تعظیم اور تقریبات کا انعقاد شعوری طور پر کیا جائے تو یہ کفر ہے اور اس فعل سے انسان اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ جیساکہ ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث اس بارے واضح رہنمائی کرتی ہے: قَالَ نَذَرَ رَجُلٌ عَلىٰ عَهْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنْ یَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَةَ فَأَتَى النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانةَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم : ((هَلْ کَانَ فِیهَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاهِلِیَّةِ یُعْبَدُ؟» قَالُوا: لَا، قَالَ: «هَلْ کَانَ فِیهَا عِیدٌ مِنْ أَعْیَادِهِمْ؟» قَالُوا: لَا، قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صلی اللہ علیہ وسلم : «أَوْفِ بِنَذْرِكَ فَإِنَّهُ لَا وَفَاء َ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِیَةِ اللّٰهِ وَلَا فِیمَا لَا یَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ))[2] ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے یہ نذر مانی کہ وہ مقام بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرے گا۔ وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ کیا بوانہ میں زمانۂ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی وہاں پوجا کی جاتی تھی؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: نہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا وہاں کفار کا کوئی میلہ لگتا تھا؟ عرض کیا: نہیں۔ تو
[1] http://www.minhaj.com.pk/ur/261 [2] سنن ابو داود:۲۸۸۱