کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 95
القادری عیسائی پادریوں کے ہمراہ کرسمس کیک کی شمعیں روشن کررہے ہیں، کرسمس کیک کاٹ رہے ہیں اور عیسائی برادری میں تحفے بھی تقسیم کررہے ہیں۔ یہا ں تک کہ عیسائی اپنے ڈھول باجے بھی ساتھ لائے تھے جس کو اُنہوں نے مذہبی عقیدت کے ساتھ بجایا، جس میں طاہر القادری کے الفاظ یہ تھے: "اُنہوں نے وہاں موجود مسیحی ڈھول باجے کی دھنیں بجانے والوں کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ کی اُنگلیاں ماہرانہ انداز میں چلتی ہیں۔ میری خواہش ہے کہ آپ سنیوں کے محفل سماع میں بھی آئیں اور قوالی میں شریک ہوں۔"[1] اس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے یہ حکم بھی صادر فرمادیا کہ "منہاج القرآن کی مسجد عیسائیوں کے لئے کھلی رہے گی۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمیں امن کے قیام کے لئے نفرتیں ختم کرنا ہوں گی۔"[2] "ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ ادارہ کی مسجد مسلمانوں کے ساتھ عیسائی بھائیوں اور بہنوں کیلئے بھی ہر وقت کھلی ہے۔ وہ جب چاہے اپنے مذہب کے مطابق اسمیں عبادت کرسکتے ہیں۔"[3] یعنی اب مسلمانوں کی مساجد میں عیسائی ڈھول باجوں کے ساتھ عبادت کریں گے اور اپنا ناقوس بھی مساجد میں بجائیں گے۔ العیاذ باللہ چنانچہ جب طاہر القادری صاحب کی اس حرکت پر اعتراض کیا گیا اور سخت تنقید کی گئی تو اُن کے ایک مرید ابو الاوّاب ہاشمی نے "کرسمس کی تقاریب کا اہتمام اور اُن میں شرکت" کے تحت منہاج القرآن کی ویب سائٹ پر اس اعتراض کا جواب یوں دیا: "اس ضمن میں سب سے پہلے یہ امر ذہن نشین رکھنا ضروری ہے اور اس میں کوئی دو آرا نہیں ہیں کہ کرسمس مسیحیوں کا مذہبی تہوار ہے۔ مسلمانوں کے لیے اسے مذہبی طور پر اپنانا جائز نہیں ہے۔ تحریک کے مرکز یا بیرونِ ملک مراکز پر منعقد ہونے والی کرسمس کی تقاریب کا انعقاد قطعی طور پر مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ مسیحی مذہب کے پیروکاروں کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس میں شرکا کی کثیر تعداد مسیحی افراد کی ہی ہوتی ہے اور تحریک منہاج القرآن کے سربراہ و قائد جذبۂ خیر سگالی کے اظہار کے لیے ایسی تقاریب میں شریک ہوتے ہیں۔ کرسمس کو اسلامی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے، نہ کہ اس کا اہتمام مسلمانوں کے لئے کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ الزام کلیتاً بے بنیاد ہے کہ کرسمس کی تقریب کے منہاج القرآن کے کسی مرکز پر
[1] روزنامہ انصاف،3جنوری2006ء [2] روزنامہ ایکسپریس،3جنوری2006ء [3] روزنامہ جناح،3جنوری2006ء