کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 90
دوسرے ان کے شدید ناقدین ہیں جو انہیں طاہر الپادری، مرتد اور صلیبیوں کا مفتی جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ ایسے میں اس بات کی بہت ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ پروفیسر صاحب کے علمی، اخلاقی اور روحانی بگاڑ و فساد پر معتدل نقد کی جائے کہ جس میں تکفیر پر مبنی فتوٰی کی زبان استعمال نہ ہوئی ہو۔پروفیسر صاحب کی زندگی کا ایک تاریخی جائزہ لینے والے کسی صاحبِ عقل کو اس میں اختلاف نہیں ہو سکتا ہے کہ پروفیسر صاحب جاہ وجلال، مقام ومرتبہ اور معاشرتی و سیاسی جاہ و جلال کے پجاری ہیں اور اس کے لیے اُنہوں نے اپنے اور لوگوں کے دین کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ اس بارے پروفیسر صاحب کے متجددانہ افکار پر مشتمل ایک کتاب'متنازعہ ترین شخصیت' پر محمد خالد مصطفوی کا ایک عادلانہ تبصرہ ملاحظہ فرمائیں: "متنازعہ ترین شخصیت ، دراصل پروفیسر طاہر القادری کے 'سائیکل سے لینڈ کروزر تک' کے ارتقائی سفر کا جائزہ ہے جس پر نہایت مثبت انداز میں تنقید کی گئی ہے۔ جناب طاہر القادری کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ قول وفعل کے تضاد کا شکار رہے ہیں۔ اس داخلی وخارجی دوہرے پن نے اُن کی شخصیت کو بری طرح مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک طرف وہ بے نظیر بھٹو کو اپنی بہن قرار دہتے ہیں تو دوسری طرف محترمہ کو کرپٹ بھی کہتے ہیں۔ ایک طرف وہ میاں نواز شریف کو سیکورٹی رسک قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف انہیں ایٹمی دھماکہ کرنے پر مبارک باد بھی پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ احتجاج اور ریلیوں سے ملک میں بدامنی پھیلے گی ، دوسری طرف وہ خود بڑے اہتمام سے احتجاجی جلسے، جلوس اور ریلیاں منعقد کرواتے ہیں۔ ادھر کلچرل میلہ کا انعقاد کرواتے ہیں تو ادھر میلاد کانفرنس کا اہتمام بھی دھوم دھام سے کرتے ہیں۔ علامہ طاہر القادری نے گزشتہ کئی برسوں سے ماڈریٹ، پروگریسو اور سیکولر شخصیت کا گاوٴن پہن رکھا ہے۔ وہ خواب، کہانیاں، بے وقت کی راگنیاں اور اوٹ پٹانگ باتوں سے قوم کو محظوظ کرتے رہتے ہیں۔ ان کی پریس کانفرنسیں رطب ویابس، لاحاصل اور مناقضات سے بھرپور ہوتی ہیں۔ بہترین درسگاہ 'ادارہ منہاج القرآن' جن عظیم الشان مقاصد کے حصول کے لیے قائم کیاگیا تھا، بدقسمتی سے وہ پروفیسر طاہر القادری کی منفی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ مہاتما بننے کی اندھی خواہش اور خود کو 'عقل کل' سمجھنے کے نفسیاتی عارضے کا شکار ہو کر ان کی شخصیت 'ایبسٹریکٹ آرٹ' کا شہکار بن چکی ہے۔ یہا ں سے فارغ ہونے والے نوجوان جنہوں نے کارِ زمانہ کی باگ دوڑ سنبھالنا تھی، اپنی اوچھی حرکات کی بدولت معاشرے میں ہدفِ تضحیک بن کر رہ گئے ہیں۔ 'مصطفوی انقلاب' کے نعرہ سے دستبرداری کے بعد 'وزیر اعظم طاہر القادری' ان کا نصب العین ٹھہرا۔ نجانے اُنہیں کس کی نظر کھا گئی کہ ان کا معیار