کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 9
پر واضح کردیں جو اُن کی طرف اتاری گئی اور تاکہ وہ غوروفکر کریں۔''
یہی وجہ ہے کہ جب قرآنِ مجید کی یہ آیت نازل ہوئی:
﴿الَّذينَ ءامَنوا وَلَم يَلبِسوا إيمـٰنَهُم بِظُلمٍ أُولـٰئِكَ لَهُمُ الأَمنُ وَهُم مُهتَدونَ 82﴾[1]
''جو لوگ ایمان لائے اوراُنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا، صرف اُن کے لئے امن و سلامتی ہے او روہی ہدایت پر ہیں۔''
تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گھبرا گئے کہ ہم میں سے کون ہے جس سے کبھی ظلم سرزد نہ ہوا ہو تو کیا ہم کو امن و ہدایت اورجنّت نصیب نہ ہوگی؟ تو اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی :﴿إِنَّ الشِّركَ لَظُلمٌ عَظيمٌ 13﴾[2]
''بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔''
اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے۔ اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اطمینان حاصل ہوگیا۔[3] اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے مدعا کی وضاحت فرما دی۔
4. صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مستند اقوال کی روشنی میں قرآن کی تفسیر کی جائے گی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تفسیری اقوال کو اس لیے ترجیح حاصل ہے کہ وہ خود صاحبِ وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سنتے تھے، اپنی نمازوں میں اُسے دہراتے تھے۔ کچھ پوچھنا ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست پوچھ لیتے تھے ۔ حتیٰ کہ وقوعہ وحی کے گواہ ہونے کے ناطے نازل ہونے والی آیت کے مفہوم اور سیاق وسباق کو وہ بخوبی سمجھتے تھے۔ اُنہوں نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سیکھا اور سمجھا تھا۔ ان میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسے تھے جو فہم قرآن کے ماہرین شمار ہوتے تھے۔ ان کی اس خوبی کی تصدیق و تصویب (Confirmation) خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی؛ جیسے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور
[1] سورۃ الانعام: 82
[2] سورۃ لقمان: 13
[3] صحیح بخاری: 32