کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 89
ہیں، اس لئے وہ اپنے دشمنوں سے جو کوئی بھی ہو سکتے ہیں، حد درجہ خوفزدہ ہوئے بلکہ 'دشمن فوبیا' میں مبتلا ہو گئے۔ لیکن ان دلائل کو آسانی سے زیر بحث لایا جا سکتا تھا۔ یہ واقعہ کہ مسٹر قادری،اپنے مخصوص خوابوں کو بیان کرنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں یا اُن کے غیر صحت مندانہ ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کو خواب آتے بھی ہوں لیکن اُن کے تعصّبات کو بھی بالکل نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جبکہ وہ اپنے خوابو ں کو ایک خاص انداز میں بیان کرتے ہیں اور اپنی شخصیت کو ایک خاص رنگ دیتے ہیں، اس ذہنی ساخت کی شخصیت سے ہر چیز ممکن ہے۔ نصف رات کے سمے ان پر مسلّح آدمیوں کے حملے کے ڈرامے کو بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔"[1] عدالت کے اس فیصلہ کے مطابق پروفیسر صاحب نے شہرت کے حصول کے لیے اپنی رہائش گاہ پر خود ہی فائرنگ کروائی تھی اور اس کی ذمّہ داری اپنے سیاسی مخالفین پر عائد کر دی۔ اس واقعہ کے بارے رفیق ڈوگر صاحب کی 'علامہ کلاشنکوف' اور محمد اشرف ملک کی 'نامور شخصیات کی ناقابل یقین جعل سازیاں' کے نام سے ایک تحریر بھی شائع ہوئی ہے۔ پروفیسر صاحب کے غیر مذہبی ناقدین کی ایک بڑی تعداد میدانِ صحافت سے تعلق رکھتی ہے۔ معروف صحافیوں اور کالم نگاروں میں سے مجیب الرحمٰن شامی، ضیاء شاہد، عطاء الحق قاسمی، حسن نثار، الطاف حسن قریشی، تنویر قیصر شاہد، محمد یونس بٹ اور عباس اطہر نے بھی ان پر نقد کی ہے۔علاوہ ازیں محمد اسلم اعوان، منیر القادری، صابر شاکر، خورشید احمد ندیم، رفیق ڈوگر، ڈاکٹر اختر نواز خاں، اسد کھرل، قیوم قریشی، مریم گیلانی، رانا پرویز حمید، راحت ملک، سعادت خیالی، ممتاز شفیع، ظفر اقبال، پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب، پروفیسر افضل علوی، چوہدی خادم حسین، میاں غفار، ملک نجیب الرحمٰن ارشد، سلطان محمود، جاذب بخاری، سلمی عنبر، مظفر وارثی، نذیر حق، آفتاب اقبال، محمد انور گرے وال، تنویر عباس نقوی، بیگ راج، لالہ عاجز، سرفراز اقبال اور عرفان احمد وغیرہ نے بھی پروفسیر طاہر القادری پر مختلف اخبارات میں تنقیدی کالم لکھے ہیں جنہیں محمد نواز کھرل نے اپنی کتاب 'متنازعہ ترین شخصیت' میں جمع کر دیا ہے۔ خلاصۂ کلام پروفیسر صاحب کے بارے اس وقت دو انتہائیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ ایک تو ان کے مداحین ہیں جو اُنہیں شیخ الاسلام، مجتہدِ مطلق اور قبلہ حضور سے کم درجہ دینے کو تیار نہیں ہیں اور
[1] ڈاکٹر محمد طاہر القادری میدان کارزار میں : ص 209۔210، انکشاف پبلشرز، لاہور