کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 86
طاہر القادری صاحب اور صحافت روزنامہ خبریں ، 17 جنوری 2000ء کے ایڈیشن میں 'اسد کھرل' صاحب کا ایک کالم شائع ہوا جس کے مطابق 12 اکتوبر کی تاریخ میں رات 8 بجے طاہر القادری صاحب پریس کانفرنس سے خطاب فرما رہے تھے کہ ان کا میڈیا سیکرٹری موبائل فون ہاتھوں میں تھامے حاضر ہوا کہ کہنے لگا کہ قبلہ صاحب جی ایچ کیو سے آپ کے لیے فون ہے حالانکہ اس وقت ملکی وغیر ملکی تمام صحافیوں کے موبائل فون بند تھے کیونکہ موبائل فون سروس چالو نہیں تھی۔ اس پر ایک صحافی نے جب قبلہ حضور سے استفسار کیا ہے: موبائل سروس تو بند ہے تو آپ کو فون کیسے آ گیا تو قبلہ کچھ لمحے پریشان رہنے کے بعد فرمانے لگے کہ یہ 'سپیشل کیس' ہے۔اس پر وہاں موجود صحافی کہنے لگے کہ 'قبلہ' کا ڈرامہ فلاپ ہو گیا ہے۔ روزنامہ پاکستان، 4 دسمبر 2000ء کے شمارہ میں چوہدری خادم حسین کا ایک کالم شائع ہوا جس میں یہ بیان ہوا کہ 2رمضان کو منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں 'پاکستان عوامی تحریک' کے چیئرمین جناب طاہر القادری صاحب نے دوپہر 2 بجے پریس کانفرنس بلوائی اور اس کے اختتام پر اخبار نویسوں کو دعوت دی کہ آپ کے لیے ہم نے اوپر چائے اور خاطر تواضع کا اہتمام کر رکھا ہے۔ اس پر اخبار نویسوں نے بتلایا کہ وہ سب تو روزے سے ہیں تو طاہر القادری صاحب نے عذر پیش کیا کہ اُنہیں بھول گیا تھا کہ آج روزہ ہے۔اس پر معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی نے 'دوپہر کو دی جانے والی افطار پارٹی' کے عنوان سے ایک مزاحیہ کالم بھی نوائے وقت میں لکھاہے۔ پروفیسر صاحب کا جب نواز فیملی کے ساتھ غارِ حرا جانے کا اتفاق ہوا تو اُنہیں میاں نواز شریف اپنے کندھے پر اٹھا کر غارِ حرا لے گئے۔ وہاں سے واپسی پر پروفیسرصاحب نے یہ دعوی کیا کہ غار حرا میں ان کی ملاقات ایک فرشتے سے ہوئی ہے جو کشمیری تھا۔ اس واقعہ پر معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی صاحب نے 'کشمیری فرشتہ' کے عنوان سے ایک مزاحیہ کالم بھی لکھا ہے۔ ناقدین جناب پروفیسر طاہر القادری صاحب کے ناقدین میں دو قسم کے لوگ ہیں: ایک مذہبی اور دوسرے غیر مذہبی مذہبی ناقدین مذہبی افراد میں سے تقریباً چاروں مسالک بریلوی، دیوبندی ، اہل الحدیث اور اہل تشیع کے بعض اہل علم نے ان پر نقد کی ہے۔ پروفیسر طاہر القادری پر نقد کا آغاز بریلوی مکتبِ فکر طرف سے ہوا۔مشیر وفاقی شرعی عدالت مفتی غلام سرور قادری صاحب نے 'پروفسیر طاہر القادری: علمی وتحقیقی جائزہ' کے