کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 84
پروفیسر طاہر القادری کے بقول امام مہدی کا ظہور تقریباً کم ازکم 8سو سال بعد سن 2204ھ میں یا اس کے بھی ایک ہزار سال بعدہو گا۔[1] ہمارے خیال میں اگر تو پروفیسر طاہرالقادری صاحب کے شیعہ ہونے سے ناقدین کی یہ مراد ہو کہ وہ اہل تشیع کو خوش کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور خلفاے راشدین پر ترجیح دیتے ہیں اور اہل تشیع کے تصورِ ولایت وامامت کے قائل ہیں اور امام مہدی کو اثنا عشریہ اہل تشیع کی طرح اپنا بارہواں امام تسلیم کرتے ہیں تو یہ بات تاحال ان کی تقاریر اور کتب سے بالکل ثابت ہوتی ہے، اِلاّیہ کہ وہ مستقبل میں کسی وقت اپنے اس موقف سے رجوع کر لیں۔ یہ درست ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت خلفاے راشدین اور بقیہ جمیع صحابہ رضی اللہ عنہم پر ثابت کرنے میں اور ان کی ولایت وامامت کے ثبوت میں تکلف وتصنع اور خطابت وبلاغت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن وہ فقہ جعفری یا زیدیہ فقہ کے پیروکار نہیں ہیں بلکہ اپنے آپ کو سنّی اور فقہ حنفی کا متبع بتلاتے ہیں۔پس یہ کہا جا سکتا ہے کہ پروفیسر طاہر القادری عقائد کے اعتبار سے تفضیلی شیعہ ہیں، لیکن فقہ میں حنفی بریلوی ہیں۔ پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب'کتاب البدعۃ' میں ان اہل تشیع کے کفر کو یقینی اور قطعی قرار دیا ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اُلوہیت کے قائل ہوں یا حضرت جبریل کے بارے یہ عقیدہ رکھیں کہ غلطی سے وحی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بجائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر لے آئے یاقرآن میں تحریف میں یا ترمیم کا عقیدہ رکھیں یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائیں یا یہ عقیدہ رکھیں کہ وصالِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم مرتد ہو گئے تھے یاحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرے۔ پروفیسر طاہر القادری کے خواب پروفیسر صاحب پر اُن کے خوابوں کی وجہ سے بھی مختلف مذہبی اور غیر مذہبی حلقوں کی طرف سے نقد ہوتی ہے۔یہ خواب تفصیلی ہیں اور اس کی آڈیوز اور ویڈیوز موجود ہیں اور ان میں سے بعض خواب انٹرنیٹ پر' یوٹیوب' نامی ویب سائیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔ ایک خواب:ایک خواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سندھ کے کسی شہر میں ہوتی ہے۔ لوگ زیارت کے لیے جاتے ہیں، لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو زیارت نہیں کرواتے۔ بالآخر پروفیسر صاحب اکیلے رہ جاتے ہیں اور اُنہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پروفیسر صاحب سے شکوہ کرتے ہیں کہ میں اہل پاکستان، دینی جماعتوں، اداروں اور علما سے نالاں ہو کر واپس جا رہا ہوں، کیونکہ اُنہوں نے میری قدر نہیں کی اور اسی لیے میں نے اُن سے ملاقات
[1] http://www.youtube.com/watch?v=iUnbJHW2XNs&NR=1