کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 83
آیت ﴿وَفَدَينـٰهُ بِذِبحٍ عَظيمٍ 107﴾... سورة الصافات" میں 'ذبح عظیم' سے مراد حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو لیا ہے۔ شیعہ ہونے کا الزام بریلوی مکتب فکر کے بعض اہل علم نے پروفیسر طاہر القادری پرتفضیلی شیعہ ہونے کا بھی الزام عائد کیا ہے جیسا کہ مفتی غلام سرور قادری نے اپنی کتاب 'پروفیسرطاہر القادری: علمی وتحقیقی جائزہ' میں کہا ہے۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب نے 'قصر بتول' میں 'مولودِ کعبہ' کے نام سے ایک تقریر میں یہ کہا : "تمام صحابہ رضی اللہ عنہم بھی اکٹھے ہو جائیں تو علم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ کا کوئی ثانی نہیں ۔"[1] اسی طرح پروفیسر طاہر القادری صاحب جامعہ المنتظر، لاہور میں مجلس عزا پڑھتے ہوئے کہا کہ سنّیت اور شیعیت میں کوئی جھگڑا نہیں ہے اور اصل مسئلہ خوارجیت کا ہے یا دوسرے الفاظ میں سنّی اور شیعہ ایک ہی ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔[2] پروفیسر طاہر القادری اپنی کتاب 'السیف الجلي على منکر ولایة على' میں کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت تین قسم کی تھی: ایک خلافتِ ظاہری اور دوسری خلافتِ باطنی، پہلی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ کو ملی اور دوسری حضرت علی رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ کو ۔ پہلی قسم کی خلافت سیاسی منصب تھا اور دوسری قسم کی خلافت روحانی منصب۔پہلی قسم کی خلافت انتخابی وشورائی تھی اور دوسری قسم کی وہبی واجتبائی۔ پہلی قسم کی خلافت کا تقرر عوام الناس نے کیا اور دوسری کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے۔ پہلی قسم کی خلافت کا دائرۂ کار فرش تھا اور دوسری کا عرش تک تھا۔پہلی قسم کی خلافت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ کے بعد خلفاے راشدین میں جاری ہوئی اور دوسری قسم کی خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد اہل بیت کے بارہ اماموں میں جاری ہوئی۔ پہلی قسم میں آپ کی سیاسی وراثت جاری ہوئی اور دوسری قسم میں روحانی وراثت۔ دوسری قسم کی خلافت کو ولایت وامامت بھی کہتے ہیں۔[3] پروفیسر طاہر القادری صاحب نے اپنی کتاب 'مسئلہ ولادتِ امام مہدی' میں یہ بھی وضاحت کی ہے کہ دوسری قسم کی خلافت یعنی ولایت وامامت کے آخری خلیفہ امام مہدی ہوں گے اور یہ بارہویں خلیفہ یا امام ہوں گے جیسا کہ اہل تشیع کے ہاں بھی امام مہدی ان کے بارہویں ہی امام ہیں۔ اُنہوں نے اپنی کتاب 'السیف الجلی علی منکر ولایۃ علی' میں کہا ہے کہ حضرت مولا علی المرتضی رضی اللہ عنہ اور حضرت مہدی الارض والسماء ، باپ بیٹا دونوں، اللہ کے' ولی' اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے 'وصی' ہیں۔
[1] روزنامہ جنگ، 19 مئی، 1987ء [2] http://www.youtube.com/watch?v=ylj62DZNbq4&feature=related [3] السیف الجلی علی منکر ولایۃ علی: ص 9،10