کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 8
﴿وَإِذ قُلنا لِلمَلـٰئِكَةِ اسجُدوا لِءادَمَ فَسَجَدوا إِلّا إِبليسَ كانَ مِنَ الجِنِّ فَفَسَقَ عَن أَمرِ‌ رَ‌بِّهِ...50﴾[1] ''اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ، تو وہ سب جھک گئے ، مگر ابلیس نہ جھکا۔وہ جنوں میں سے تھا۔ اس نے اپنے ربّ کے حکم کی نافرمانی کی۔'' 3. قرآن کی تفسیر حدیث و سنّت کے مطابق کی جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرضِ منصبی تھا کہ تلاوتِ آیات کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تعلیم بھی دیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿لَقَد مَنَّ اللَّهُ عَلَى المُؤمِنينَ إِذ بَعَثَ فيهِم رَ‌سولًا مِن أَنفُسِهِم يَتلوا عَلَيهِم ءايـٰتِهِ وَيُزَكّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَإِن كانوا مِن قَبلُ لَفى ضَلـٰلٍ مُبينٍ﴾[2] ’’بے شک اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا کہ اُنہی میں سے ان کے پاس ایک رسول بھیجا جو اُن کو اللہ کی آیتیں سناتا، اُن کو پاک کرتا اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس کی بعثت سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘ دوسرےمقام پر فرمایا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ایک مقصد وحئ الٰہی کی 'تبیین' ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قرآنِ مجید کا مدعا بیان کریں، اس کی مراد واضح کریں اور اس کی تشریح فرمائیں: ﴿وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم وَلَعَلَّهُم يَتَفَكَّر‌ونَ 44﴾[3] ''او رہم نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ذکر یعنی قرآن نازل کیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس چیز کو لوگوں
[1] سورۃ الکہف:50 [2] سورۃ آل عمران: 164 [3] سورۃ النحل: 44