کتاب: محدث شمارہ 359 - صفحہ 76
اُنہوں نے اپنی کتاب اسلام میں خواتین کے حقوق میں کہا ہے کہ عورت پارلیمنٹ کی ممبر بن سکتی ہے اور دلیل یہ بیان کی ہے کہ حضرت عمر کے دور میں بھی خواتین مجلس شورٰی کی ممبر تھی، یہی وجہ ہے کہ حق مہر کے متعین کرنے کے مسئلہ میں ایک خاتون نے حضرت عمر پر اعتراض کیا تھا اور اس اعتراض پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں: " اس واقعہ کی رو سے یہ بات ملحوظ رہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کسی عوامی جگہ یعنی مارکیٹ ، بازار وغیرہ میں ریاستی معاملہ discussنہیں کر رہے تھے بلکہ یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں زیر غور تھا جس کا مطلب ہے کہ عامۃ الناس کی بجائے منتخب افراد ہی اس عمل مشاورت میں شریک تھے۔ لہٰذا ایک خاتون کا کھڑے ہو کر بل پر اعتراض کرنے سے یہ مفہوم نمایاں طورپر اخذ ہوتا ہے کہ اس دور میں خواتین کو ریاستی معاملات میں شرکت کرنے، حکومت میں شامل ہونے اور اپنی رائے پیش کرنے کا اختیار حاصل تھا۔مزید برآں حضرت عمررضی اللہ عنہ کا بل واپس لے لینا اور اپنی غلطی کا اعتراف کر لینا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسلام میں جنسی امتیاز کے لئے کوئی جگہ نہیں اور مردو زن کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔" پروفیسر طاہرالقادری صاحب کے بقول عورت ایک سیاسی مشیر کے طور پر بھی کام کر سکتی ہے اور اس کی دلیل وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خدیجہ اور دیگر اُمہات المومنین رضی اللہ عنہن، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی مشیر تھیں۔ان کے بقول عورت کو انتظامی عہدوں پر بھی فائز کیا جا سکتا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شفا بنت عبد اللہ عدویہ کو بازار کا نگران مقرر کیا تھا۔ان کے بقول عورت کو سفیرمقرر کیا جا سکتا ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اُمّ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کو ملکہ روم کے دربار میں سفیر بنا کر بھیجا تھا۔ لہٰذا ان کے نزیک وراثت میں حصوں کی تعین کی بنیاد جنس نہیں ہے یعنی عورت کو عورت ہونے کی وجہ سے آدھا حصہ نہیں دیا گیا بلکہ مرد کو معاشی ذمہ داریوں کے سبب سے زیادہ حصہ دیا گیا ہے۔ لیکن اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عورت کسی گھر میں اپنی ملازمت کے ذریعے گھر کی معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہو تو کیا اس صورت میں اسے خاوند کے برابر حصہ ملے گا؟ اگر نہیں تو پھر عورت کے وراثت میں نصف حصہ ہونے کی یہ علت نکالنا بھی درست نہیں ہے۔ 1978ء تک وہ عورت کی حکمرانی کے قائل نہ تھے، لیکن1998ء میں ان کا یہ موقف تبدیل ہو گیا اور اُنہوں نے علما سے بے نظیر کی حکمرانی قبول کرنے کی اپیل کی۔ اور 2،3نومبر1993ء کے روزنامہ جنگ کے مطابق طاہر القادری نے کہا کہ عورت کسی بھی اسلامی ملک کی سربراہ ہو سکتی ہے اور نام نہاد علما اپنی دوکان چمکانے کے لیے عورت کی حکمرانی کے بارے فتوٰی جاری کرتے ہیں۔